نئی دہلی: وہاٹس ایپ اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجنے سے متعلق انکرپشن پالیسی کے مسودہ پر مختلف حلقوں کی طرف سے سخت اعتراض کے بعد حکومت نے آج اسے واپس لے لیا۔کمیونیکیشن او رانفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے آج یہاں کابینہ کی میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا کے لئے یہ پالیسی بنانے والی ماہرین کی کمیٹی نے اس کے مسودے کو کل ہی عام کیا تھا اور عام لوگوں سے اس پر رائے مانگی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ابھی مسودہ ہے اور حکومت کی پالیسی نہیں ہے ۔ انہوں نے اسے کل ہی دیکھا تھا اور اس میں کچھ ایسی باتیں لکھی تھیں جن سے شبہ پیداہورہا تھا اس لئے حکومت نے آج صبح محکمہ کو اسے واپس لینے کی ہدایت دی ہے ۔وزیر مواصلات نے کہا کہ انہوں نے محکمہ سے تمام امور پر دوبارہ تفصیلی غور و خوض کرنے کے لئے کہا ہے اور اسے حتمی شکل دینے کے بعد مسودے کے بارے میں ایک بار پھر لوگوں سے رائے طلب کی جائے گی۔
مسٹر پرساد نے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا کی آزادی کی حمایت کرتی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس میڈیا کی سرگرمیاں کافی آگے بڑھی ہیں اور حکومت اس آزادی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سائبر اسپیس میں لوگوں کی سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور اب تک اس کے ریگولیشن کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں تھی جس کے مدنظر حکومت نے ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ انکرپشن پالیسی سے متعلق دو امور ہیں پہلا یہ کہ انکرپشن کا ذریعہ کون ہے اور دوسرا معاملہ یہ ہے کہ اسے کون صارف حاصل کرتا ہے ۔ حکومت کا مقصد یہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت ان ذرائع کو کنٹرول کیا جائے جو ان پیغامات کو بھیج رہا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ عام صارف اس پالیسی کے دائرے میں نہیں آتا ہے ۔یہ پوچھے جانے پر کہ حکومت نے نیٹ نیوٹریلیٹی کے سلسلے میں بھی اپنا فیصلہ واپس لیا تھا اور اب انکرپشن پالیسی کے مسودے کو بھی واپس لے رہی ہے تو کیا اس سے اس کا امیج خراب نہیں ہوگا۔ مسٹر پرساد نے کہا کہ نیٹ نیوٹریلیٹی کے سلسلے میں کوئی تنازع نہیں ہے او رحکومت نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا تھا ۔ حکومت نے راجیہ سبھا میں بھی اس سلسلے میں تفصیلی بیان دیا تھا ۔ اس سلسلے میں ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کی رپورٹ کا انتظار ہے ۔