اعجاز حسین
ویسے تو پاک پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری پاکیزہ زندگی عظیم الشان قربانیوں سے آراستہ ہے مگر بحکم خداوندی اپنے لاڈلے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نازک و نرم خوبصورت نورانی گلے پر اپنے ہاتھ مبارک سے پوری قوت کیساتھ تیزدھار چھری کا چلانا ایسی لا مثال و منفرد قربانی ہے ، کہ تعمیل حکم و اطاعت خداوندی کی ایسی مثال نہیں ملتی، اطاعت خداوندی کا یہ انوکھا نرالا انداز کیوں کر وقوع پذیر ہوا ، بقول شاعر کہ
خدائے پاک نے خود ان کی ایسی تربیت کی تھی
شعور و فکر و دانائی کی وہ دولت انہیں دی تھی
خدا نے ہی انہیں بخشا تھا وہ ایثار کا جذبہ
خدا کے حکم پر دینے چلے بیٹے کا نذرانہ
خدا کے امتحان میں کامیاب و کامراں آئے
اسی باعث جہاں میں وہ خلیل اللہ کہلائے
اب ادھر دیکھیں کہ جب باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ، اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے ؟ “ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں !نہیں! ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمابرداری دیکھئے ،وہ بیٹا بھی تو کوئی عام بیٹانہیں تھا ، وہ بھی آخر خلیل اللہ کے فرزند ارجمند تھا ۔ اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تھا تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا، کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلبِ اطہر سے آقائے دو جہاں ،تاجدارِانبیائ،شفیعِ روزِ جزا، جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنے نورِ مبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے۔ اس لیے وارثِ نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی۔آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جا ن مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، بلکہ قربان جاﺅں! اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اس (بیٹے) نے کہااے ابا جان!آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیاہے، انشاءاللہ ! آپ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ( الصفّٰت: 102 )“ اے اباجان! میں روﺅں گا نہیں اور نہ ہی میں چلاﺅں گا اور نہ ہی آپ کو اس کام سے منع کروں گا،اب آپ چلئے اور اس حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے۔انشاءاللہ ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اب آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالی کے عشق میں اپنی گردن مبارک زمین پر رکھ دی ، اور باپ نے چھری کو چلانا شروع کیا تو آسمان دنیا کے فرشتے پہلی دفعہ اطاعت خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالی شان منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے ، قریب تھا کہ چھری چل جاتی ، لیکن اللہ کریم کی طرف سے ندا آئی ، اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، یہ ایک بڑی آزمائش تھی تم اس میں کامیاب ہوئے اور اللہ تعالی نے جنت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے قربانی کیلئے ایک دنبہ بھیج دیا ، اور یوں یہ سنت ابراہیمی قیامت تک ہر صاحب استطاعت پر واجب کردی گئی
وہ قربانی رہ حق میں جو اسماعیل نے دی تھی
مثال اس کی ہمیں تاریخ عالم میں نہیں ملتی
خدا نے اس کی قربانی کو خود ناز سے دیکھا
ذبیح اللہ کا اعزاز عالی پھر انہیں بخشا
حضر ت زید بن ارقم رئی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ، اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی ، انہوں نے پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ ، اون کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ، اون کے ہر بال کے عوض میں بھی ایک نیکی ملے گی (مشکوة شریف) حضرت عبد اللہ بن عمردضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی (مشکوة شریف) حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ ” قربانی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ (ترمذی ، ابن ماجہ ) ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا اور خوشنودی کے لئے ذیادہ سے ذیادہ قربانیاں کرنے کی توفیق عطاءفرمائے اور ہماری فربانیوں کو اپنی بارگاہ رحمت میں قبول فرمائے۔آمےن(ےو اےن اےن)