مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ حملے سنیچر کو شروع ہوئے اور اتوار کو بھی کئی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے
افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دنوں میں ملک کے مشرقی صوبے ننگرہار میں پولیس کی متعدد چوکیوں پر حملے کرنے والے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے وفادار 130 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق ننگر ہار صوبے میں پولیس چوکیوں پر حملے کرنے والے 85 جنگجوؤں کی ہلاکت اتوار کے روز ہوئی ہے۔
دوسری جانب افغان فوج کا کہنا ہے کہ مشرقی صوبے پکتیا میں ایک والی بال میچ کے دوران شدت پسندوں کے حملے میں دس شہری ہلاک اور 30 زخمی ہوگئے ہیں۔
’ننگرہار میں داعش کا اثر بڑھا ہے‘
اس سے قبل افغان حکام کا کہنا تھا کہ ننگرہار میں پولیس کی متعدد چوکیوں پر کم از کم 300 جنگجوؤں کے حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ حملے ضلع اچین میں ہوئے اور ان میں دو اہلکار بھی مارے گئے۔
مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ حملے سنیچر کو شروع ہوئے اور اتوار کو بھی کئی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہم داعش کی موجودگی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ داعش دو صوبوں ننگرہار اور ہلمند میں موجود ہے لیکن ہماری خفیہ اطلاعات 25 صوبوں میں داعش کی موجودگی کی تصدیق نہیں کرتیں۔ ہلمند میں اس گروہ کو شکست ہوئی ہے لیکن ننگرہار میں یہ اب بھی ایک خطرہ ہیں اور آپ اس گروہ کے خلاف ہمارے متعدد آپریشنز کے شاہد ہیں۔
صدیق صدیقی، افغان ترجمان
بی بی سی کے نامہ نگار سید انور کے مطابق ننگرہار میں دولتِ اسلامیہ سے وفاداری کا اظہار کرنے والے جنگجوؤں کی جانب سے پولیس چوکیوں پر حملوں کا واقعہ پہلی بار پیش آیا ہے۔
اچین کے ضلعی سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تین سے چار سو شدت پسندوں نے رات دو بجے سے حملے شروع کیے تھے تاہم انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہمارے دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے ہیں جبکہ 35 شدت پسند ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اتوار کو دولتِ اسلامیہ کے دو ٹھکانوں پر بمباری بھی کی گئی ہے جس میں 60 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
دولتِ اسلامیہ سے منسلک افغان شدت پسندوں کی جانب سے اس کارروائی کے بارے میں کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔