لندن: ہمارا جسم بظاہر کسی واضح تبدیلی کے لئے کس طرح گرمی میں گرم اور سردی میں سرد محسوس کرتا ہے یہ بات سائنس دانوں کو کافی عرصے سے پریشان کر رہی تھی لیکن اور اب سائنس دانوں نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے جسم میں موسم کا حساب رکھنے والا ’کیمیائی کیلینڈر‘ دریافت کر لیا ہے۔
یونیورسٹی آف مانچسٹر اور یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے سائنس دانوں نے ایک سال کے مختلف اوقات میں بھیڑوں کے دماغ کا جائزہ لیا اس ٹیم کو جسم میں ہزاروں خلیوں پر مشتمل ایک ایسا مجموعہ ملا جو موسمِ سرما یا موسمِ گرما کی حالت میں ہوتا ہے۔ یہ سالانہ کیلنڈر اس بات کو کنٹرول کرتا ہے کہ جانور کب بچے پیدا کرتا ہے، کب ہجرت کرتا ہے، اور کب سردیوں میں لمبی نیند سوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دماغ میں پائے جانے والے پٹوئٹری غدود کے اندر 17 ہزار خلیوں پر مشتمل ’کیلنڈر خلیے‘ ایسے ہارمونز خارج کرتے ہیں جو تمام جسم کے افعال پر اثرانداز ہوتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ خلیے کسی کمپیوٹر کے ’بائنری نظام‘ کی طرح کام کرتے ہیں، اور ایک وقت میں دو میں سے کسی ایک حالت میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ خلیے ’موسمِ سرما‘ یا ’موسمِ گرما‘ کے کیمیائی اجزا خارج کرتے ہیں۔ ان کیلنڈر خلیوں کا تناسب سال بھر کے دوران بدلتا رہتا ہے جس سے وقت کے گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔مانچسٹر یونیورسٹی کے تحقیق کار پروفیسر اینڈریو لوڈن کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ سردیوں کے وسط میں یا گرمیوں کے بیچوں بیچ یہ خلیے صرف ایک حالت یا صرف دوسری حالت میں پائے جاتے ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ جسم کو یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہار یا خزاں کا موسم ہے، کیوں کہ اس دوران کچھ خلیے گرمیوں اور کچھ سردیوں کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم میں ایک یومیہ گھڑی بھی ہوتی ہے جو 24 گھنٹوں کے وقت کا حساب رکھتی ہے۔ یہ دونوں گھڑیاں روشنی سے متاثر ہوتی ہیں۔ اگرچہ انسانوں میں بچے پیدا کرنے کا موسم نہیں ہوتا لیکن یہ سالانہ گھڑی اس پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔