رواں سال میں یہ دوسرا موقع ہے جب شدت پسندوں نے صوبائی دارالحکومت میں گھسنے کی کوشش کی ہے
افغان پولیس کے مطابق سینکڑوں طالبان جنگجوؤں نے ملک میں سٹریٹیجک لحاظ سے اہم شہر قندوز پر کئی اطراف سے حملہ کیا ہے اور وہ شہر کے نصف حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق شدت پسندوں نے ایک جیل سمیت کچھ سرکاری عمارتوں پر قبضہ کیا ہے اور اب شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کے شہر کے مرکزی علاقے میں اپنا پرچم بھی لہرا دیا ہے۔
افغان حکام کے مطابق اب تک لڑائی میں دو افغان فوجی اور 25 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جبکہ شہر میں موجود سکیورٹی اہلکاروں کی مدد کے لیے تازہ کمک بھیجی جا رہی ہے۔
قندوز میں پولیس کے ترجمان سید سرور حسینی نے بی بی سی کے محفوظ زبیدی کو بتایا کہ شدت پسندوں نے مقامی جیل پر قبضہ کر کے پانچ سو کے قریب قیدیوں کو رہا کروالیا ہے جن میں متعدد طالبان بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل انھوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ’ شہر کے مرکزی داخلی راستوں خان آباد، چاردرا اور امام شہید پر شدید لڑائی جاری ہیں۔ ہمارے پاس کافی نفری ہے اور ہم انھیں باہر نکال دیں گے‘
رواں سال میں یہ دوسرا موقع ہے جب شدت پسندوں نے صوبائی دارالحکومت میں گھسنے کی کوشش کی ہے۔
اب تک 20 طالبان ہی ہلاک ہوئے ہیں:پولیس
قندوز پولیس کے ترجمان سید سرور حسینی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پیر کی صبح طالبان نے شہر پر کئی اطراف سے حملہ کیا۔
افغان خبر رساں ادارے نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان سے جھڑپوں میں 21 افراد مارے گئے ہیں جبکہ 13 شدت پسند بھی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ پولیس نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ اب تک 20 طالبان ہی ہلاک ہوئے ہیں۔
افغان صوبہ قندوز وسطی اور شمالی افغانستان کو جوڑنے والی شاہراہوں پر واقع ہے اور نامہ نگاروں کے مطابق یہ سٹریٹیجک لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اتوار کو مشرقی صوبے ننگرہار سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے وفادار 300 جنگجوؤں کے پولیس چوکیوں پر حملے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔
افغانستان میں حالیہ کچھ عرصے سے پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اتوار کو ہی شورش زدہ مشرقی صوبے پکتیا میں کھیلوں کے ایک مقابلے کے دوران شدت پسندوں کے حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
تاحال کسی شدت پسند گروہ کی جانب سے تاحال حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی جبکہ طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔