امریکی صدر براک_اوباما نے شام میں صدر بشارلاسد کی حمایت میں فوجیں اتارنے پرروس کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ شام کا محاذ جنگ ایران اور روس کے لیے دلدل ثابت ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں آمر اور مظلوم عوام کے درمیان کشمکش جاری ہے جس میں عوام کی فتح یقینی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ائیٹ_ہائوس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے براک اوباما کا کہنا تھا کہ شام میں روس کی فوجی مداخلت سے دولت اسلامیہ عراق وشام داعش مزید طاقت ور ہو جائے گی۔ امریکیوں نے روس کا یہ فلسفہ ‘ کہ بشار الاسد کی مخالفت کرنے والے تمام لوگ دہشت گرد ہیں’ کلی طور پر مسترد کردیا ہے۔
صدر اوباما کاکہنا تھا کہ صدر بشار الاسد ایران اور روس کی مدد کی وجہ سے اب تک اقتدار پر قابض ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر_پوتن نے ایک ایسے وقت میں شامل میں فوجی مداخلت کی ہے جب بشارالاسد کی حکومت ختم ہونے کو ہے۔ انہوں نے الزام عاید کیا کہ ماسکو شام کی اعتدال پسند اپوزیشن کو کمزور کرنے کی سازش کرتے ہوئے داعش جیسے انتہا پسندوں کو تقویت پہنچا رہا ہے۔ اس وقت ایران اور صدر بشار الاسد ہی صدر پوتن کے حلیف ہیں، باقی ساری دنیا ہمارے ساتھ ہے۔ صدر بشارالاسد کی حمایت اور مدد کی وجہ سے شام ایران اور روس کے لیے دلدل ثابت ہوگا۔
امریکی صدر نے کہا کہ صدر بشار الاسد مسئلے کےحل کا حصہ نہیں بلکہ خود مسئلہ ہیں۔ جب تک وہ اقتدار پر قابض اور روس کی جانب سے فوجی کارروائی جاری رہتی ہے تو شام میں انتقال اقتدار کا عمل آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے روسی صدر پوتن پر واضح کردیا ہے کہ شام میں عبوری دور میں بشارالاسد کا کوئی سیاسی کردار تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکا شام میں اعتدال پسند قوتوں کی عسکری معاونت جاری رکھے گا، مگر روس کی فوجی مداخلت سے جہاں دہشت گرد گروپوں کو تقویت مل رہی ہے وہیں اعتدال پسندوں کے لیے مشکلات بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ شام میں فوجی مداخلت کی روسی پالیسی بدترین ناکامی سے دوچار ہوگی مگر اس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بیرون ملک سے مزید جنگجو بھرتی کرنے کا بھی موقع ملے گا۔
امریکی صدر براک اوباما نے وائیٹ ہائوس میں نیوز کانفرنس ایک ایسے وقت میں جب پیرس میں فرانسیسی صدر فرانسو اولاند اور جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہوں نے روسی صدر سے کہا ہے کہ وہ شام میں اپنی فوجی کارروائی کو داعش کے خلاف حملوں تک محدود رکھیں۔
جرمن چانسلر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ شام کے معاملے میں جرمنی اور فرانس ایک صفحے پر ہیں اور صدر اسد کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ان کےاور صدر اولاند کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہمارا متفقہ مطالبہ ہے کہ بشار الاسد منصب صدارت سے فوری طور پر الگ ہوجائیں۔