سروے کے مطابق 62 فیصد نوجوان دماغی صحت سے متعلق مسائل کے بارے میں جاننے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں
برطانیہ میں بچے دماغی صحت کے حوالے سے مشوروں کے لیے سکول نرس اور معالج کے بجائے انٹرنیٹ کا رخ کر رہے ہیں۔
انگلینڈ میں بچوں کی کمشنر این لونگ فیلڈ کہتی ہیں کہ بچے معالجوں سے دماغی صحت سے متعلق مسائل پر بات کرنے کے لیے پُراعتماد نہیں ہیں۔
ایک محدود سروے کے مطابق 62 فیصد نوجوان دماغی صحت مثلاً ڈپریشن یا ذہنی دباؤ سے متعلق مسائل کے بارے میں جاننے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سکولوں میں صحت سے متعلق صلاح مشورے دینے والوں کا کردار بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
حالیہ کچھ سالوں میں این زائیٹی (اضطرابى کیفیت) اوراپنے آپ کو خود تکلیف دینے جیسے مسائل میں اضافہ فکر انگیز ہے۔ اور ہسپتالوں کے شعبہ حادثات میں آنے والے دماغی صحت سے متعلق مریضوں کی تعداد میں تیزی سے ہوتے ہوئے اضافے پربھی خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انھیں معلومات کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ انٹرنیٹ اور ایسی سہولیات پر اعتماد کر سکتے ہیں جن تک رسائی حاصل کرنے سے وہ کسی کی نظروں میں نہیں آتے‘
کمشنر لونگ فیلڈ
کمشنر لونگ فیلڈ کہتی ہیں کہ ’تمام بچوں کو معلوم ہوتا ہے جب وہ تکلیف محسوس کرتے ہیں چاہے وہ ان کے پیٹ میں درد ہو یا ٹانگ پر چوٹ، اور اس کے لیے وہ سکول نرس کے پاس بھی جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے جب دماغی صحت کی بات آتی ہے تو ان میں اعتماد کی کمی نظر آتی ہے۔ یہ مجبوری کی انتہا ہی ہے کہ بچے اپنے سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر بھٹکتے پھریں یا پھر اپنے ہم عمر دوستوں سے مدد کے طالب ہوں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’معالجوں کو سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنے اور اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اس مسئلے کے سدّباب کے لیے جو کر رہے ہیں کافی ہے۔ یا مثال کے طور پر ہر کلینک میں بچوں کی دماغی صحت کا ماہر ہونا چاہیے؟ یا انھیں اس بارے میں تشہیر کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی مصروفیات کے اندر رہتے ہوئے وہ ان کی مدد کرنے کے اہل ہیں؟‘
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ کہ انٹرنیٹ پر اس موضوع پر بہت اچھی ویب سائٹس موجود ہیں تاہم یہ اُن بچوں کی ’قسمت پر منحصر‘ ہے کہ وہ ان ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سکولوں میں صحت سے متعلق صلاح مشورے دینے والوں کا کردار بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے
کمشنر لونگ فیلڈ کہتی ہیں ’حالیہ کچھ سالوں میں این زائیٹی (اضطرابى کیفیت) اوراپنے آپ کو خود تکلیف دینے جیسے مسائل میں اضافہ فکر انگیز ہے۔ اور ہسپتالوں کے شعبہ حادثات میں آنے والے دماغی صحت سے متعلق مریضوں کی تعداد میں تیزی سے ہوتے ہوئے اضافے پربھی خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
’نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انھیں معلومات کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ انٹرنیٹ اور ایسی سہولیات پر اعتماد کر سکتے ہیں جن تک رسائی حاصل کرنے سے وہ کسی کی نظروں میں نہیں آتے۔ مثال کے طور پر نوجوانوں کے سینٹر اور سکولوں میں کلینک اور سکول نرسیں اس حوالے سے مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
ایک حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم سکولوں اور دماغی صحت سے متعلق سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کے درمیان رابطے بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اور جماعتوں کے اندر اور باہر بچوں کی بہتر نشوونما اور فروغ یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بچوں کی بہترین دماغی صحت اس حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس ہی لیے ہم آئندہ پانچ برسوں میں نوجوانوں کی دماغی صحت پر 1.25 ارب پاؤنڈ خرچ کریں گے۔‘