لولی وڈ فلم “ہلا گلہ” ناقص اسکرپٹ، بے ہنگم کہانی اور غیر تسلی بخش اداکاری کا مجموعہ ثابت ہوئی ، یہاں تک کہ جاوید شیخ اور اسماعیل تارا بھی اس جہاز کو ڈوبنے سے نہ بچاسکے۔
“ہلا گلہ” دو دوستوں کی کہانی ہے جس میں سے ایک کی دو بیویاں ہیں (اور وہ دونوں خود کو اپنے شوہر کی واحد بیوی سمجھتی ہیں) اور دوسرا جو اس بندھن میں بندھنا چاہتا ہے۔ الجھن کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ساحل اور دو بیویوں کا شوہر اداس (عاصم محمود، منیب بٹ) کوشش کرتے ہیں کہ دونوں خواتین کو ایک دوسرے کی موجودگی کا پتا نہ چلے۔ ان کے منصوبے اس وقت خاک میں مل جاتے ہیں جب دونوں بیویاں ایک دوسرے کی جانب آنے لگتی ہیں اور کھیل ختم ہوجاتا ہے۔
فلیش بیک : نوے کی دہائی میں واپس چلتے ہیں جب عمر شریف اپنی پہلی فلم (مسٹر 420) میں مرکزی کردار کی شکل میں نظر آئے جس کے بعد ہر ایک ان کے نقش قدم پر چل پڑا مگر کوئی بھی کامیڈی کے بادشاہ کی طرح فوری کامیابی حاصل نہیں کرسکا، یہاں تک مرحوم معین اختر بھی اپنی ہوم پروڈکشن (مسٹر کے ٹو) کے مرکزی کردار میں لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے کیونکہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔
“ہلا گلہ” ان فلموں میں سے ایک ہے جن کو دیکھنے سے قبل ہی کہانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس کے مرکزی کرداروں کے نام بھی ساحل، اداس اور مسکراہٹ ہیں، اسی طرح ڈان کا نام گولڈن بھائی اور ایک خاتون گینگسٹر ‘ چائے پتی’ اور خواجہ سرا کا کردار جسے ‘ شوخ’ کام نام دیا گیا۔
یہ نام سینما جانے والے ایک خاص طبقے کے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ تو لا سکتے ہیں مگر تمام فلم بین اس سے متاثر نہیں ہوسکتے جو کہ معیاری تفریح کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
تھیٹر کی بات کی جائے تو اس میں نرگس اور دیدار کے تین آئٹم سانگز بھی ہیں۔ درحقیقت جب فلمی صنعت نوے کی دہائی میں بحالی کی جانب گامزن ہوئی اور بہتر کارکردگی دکھانے لگی تو سب سے آخر میں دیکھنے والوں کی پسند کا خیال رکھا جاتا جس سے بحالی کے مقصد کو نقصان پہنچا۔
گانوں کی موسیقی ساحر علی بگا نے ترتیب دی ہے جو کافی اچھی ہے اور اگر انہیں مختلف حالات میں فلمایا جاتا تو وہ “ہلا گلہ” کو بچانے میں بھی کامیاب رہتی۔
اداکاری “ہلا گلہ” کا سب سے کمزور شعبہ رہا، ففٹی ففٹی سے شہرت حاصل کرنے والے اسمعیل تارا، اشرف خان اور عدیل واڈیہ کی موجودگی ڈائریکٹر کی ماضی کی تمام چیزوں سے وابستگی کا عندیہ دیتی ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اشرف خان اور عدیل واڈیہ نے اس سے قبل کوئی فلم نہیں کی تھی، تاہم اشرف خان نے پہلے ہاف کی تکلیف دہ اداکاری کو انٹرول کے بعد اچھی کردار نگاری سے چھپا لیا۔
مرکزی کردار ادا کرنے والے عاصم محمود اور تھیٹر ایکٹرز حنین مینیار اور بلال یوسفزئی نے تباہی کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی مگر منیب بٹ کی اوور ایکٹنگ کے سائے پوری فلم میں دیکھنے والوں پر چھائے نظر آتے ہیں۔
فلم میں کام کرنے والی خواتین ماسوائے سدرہ بتول کے، آن اسکرین نظر تو اچھی آئیں مگر ان کی اداکاری ایسی تھی جیسے وہ کسی سٹ کام کا حصہ ہو۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ فلم کی ریلیز کی تاریخ نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی کیونکہ اسے پہلے 28 اگست کو ریلیز کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جو کہ اسے کسی حد تک بچا سکتا تھا، مگر اسے عید الاضحیٰ کے دن جب ہمایوں سعید کی بڑی فلم “جوانی پھر نہیں آنی” کے ساتھ ریلیز کیا گیا جو کہ اس کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوا۔
اور اگر ہلا گلہ کے پروڈیوسر حنیف محمد، رائٹر راحیلہ مشتاق شاہ اور ڈائریکٹر کامران اکبر خان کو اب بھی حیرت ہے کہ ان کے منصوبے میں گڑبڑ کیسے ہوئی تو انہیں اپنی صلاحیتوں کو پہلے ٹیلیویژن میں کام کرکے بہتر بنایا چاہئے جس کے بعد مزید فلموں کی تیاری پر توجہ دینی چاہئے۔