یہ حسنِ اتفاق تھا کہ پچھلے سال مجھے ایک ٹریننگ پروگرام میں پاکستان بھر سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی مادری زبانوں میں گفتگو کر رہے تھے جنہیں دوسرے لوگ نہیں سمجھ پا رہے تھے، مگر اردو ہم سب ہی سمجھ لیتے تھے۔ دوسری زبانوں کے الفاظ سمجھنا اور ملک کے دیگر حصوں کی ثقافت اور روایات کے بارے میں سیکھنا ایک زبردست تجربہ تھا۔ہمارے درمیان جو چیزیں مختلف تھیں، ان سے زیادہ چیزیں ایسی بھی تھیں جنہوں نے ہمارا تعلق مضبوط کیا۔
اکیسویں صدی کی ہماری نسل انٹرنیٹ کے ساتھ بڑی ہوئی ہے۔ پاپ کلچر کی زیادہ تر چیزیں ہم میں مشترک ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں ایک ہی طرح کا تدریسی اور مارکس کا نظام اپنائے ہوئے ہیں اور ہم سب کو ہی بیرونی ثقافتی اثرات کو ہماری اپنی ثقافتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مختلف قومیتوں کے لوگوں کا ایک ساتھ جمع ہونا پاکستانی معاشرے کا چھوٹا روپ محسوس ہو رہا تھا، اور سب کچھ ٹھیک رہا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ساتھ چلنے کے لیے بالکل ایک جیسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جب ہم پاکستان کی سرکاری، قومی اور علاقائی زبانوں اور ان کے ہماری شخصی اور معاشرتی شناختوں پر اثرات کے بارے میں بات کریں، تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ پاکستان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کون سی ہے اور کیا اردو کو سرکاری زبان قرار دینا ایک منطقی اقدام ہے یا نہیں۔اگر آپ اس کے پیچھے موجود وجہ دیکھیں، تو ہاں یہ ایک منطقی اقدام ہے۔
چاہے اردو زیادہ تر پاکستانیوں کی مادری زبان ہو یا نہیں، اردو ہی وہ زبان ہے جو پاکستان بھر میں سمجھی جاتی ہے۔عوامی اعلانات اور سرکاری خط و کتابت کو آسانی کی غرض سے اردو میں کرنے میں کچھ غلط نہیں اور نہ ہی قومی قیادت کو بیرونِ ملک تقریریں اردو میں کرنے کے حکم میں کچھ غلط ہے۔ زیادہ تر ممالک کے سربراہان ایسا ہی کرتے ہیں۔
مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے اردو انگریزی کی جگہ لے لے گی، ان کا یہ خیال سادہ لوحی پر مبنی ہے کیونکہ لوگ انگریزی اس لیے نہیں سیکھتے تاکہ وہ اقوامِ متحدہ میں وزیرِ اعظم کی تقریر سمجھ لیں، بلکہ اس لیے سیکھتے ہیں تاکہ وہ بین الاقوامی پاپ کلچر، خبروں، اور تفریح کے ساتھ جڑ سکیں۔ بغیر انگریزی سیکھے ہم ان بے پناہ معلومات سے کٹ کر رہ جاتے ہیں جو ہماری اپنی زبان میں دستیاب نہیں، اس لیے لوگ انگریزی ضرور سیکھیں گے۔
مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے ہماری قومی وحدت مضبوط ہوگی، وہ غلطی پر ہیں۔
پاکستان میں بھانت بھانت کی قومیں بستی ہیں اور لہجے، لباس، کھانے، اور روایات ہر چند سو میل کے بعد مختلف ہو جاتی ہیں، اور اس اختلاف کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی تعریف کرنی چاہیے۔ اگر اردو کو رابطے کی زبان بنانے سے علاقائی زبانوں کے وجود اور ترقی کو خطرہ ہو، تو پھر یہ درست قدم نہیں۔
پاکستان میں پہلے ہی اختلافات کو قبول کرنے کے حوالے سے بہت مشکلات درپیش ہیں۔ یہاں پر پہلے ہی خواتین، اور مذہبی و لسانی اقلیتوں کو برابر کے حقوق اور نمائندگی میسر نہیں۔ معاشرتی ناانصافیوں کی فہرست میں اب مزید ایک چیز کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔
جو کرنا چاہیے، وہ یہ کہ ان اختلافات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بات کی جائے اور مثبت انداز میں کی جائے تاکہ ہم ہمارے آس پاس موجود طرح طرح کی چیزوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنا سیکھیں، کیونکہ فی الوقت ہم لوگ ہر اس چیز کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو ہم سے مختلف ہو۔ مثال کے طور پر غیر مسلم سلام کرے تو جواب نہ دینا، صرف اپنی برادری میں شادی کرنا، دوسری قومیتوں کی ذہنی سطح کے بارے میں لطیفے کسنا، اور ملک کے جس حصے میں ہمارا کوئی جاننے والا نہ رہتا ہو، وہاں کی خبریں نظرانداز کر دینا۔
جانیے: قومی زبان صرف ایک کیوں؟
یہ تمام چیزیں ایک بڑے مسئلے کی جانب اشارہ کرتی ہیں، جسے تسلیم کرنے سے ہم انکاری ہیں۔ ہم خود کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور ہر مختلف شخص کو اس گروہ سے باہر نکال دیتے ہیں۔ ہاں ہمیں بحیثیت انسان جانی پہچانی چیزوں کو دیکھ کر سکون و اطمینان ملتا ہے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اس میں اتنے انتہاپسند ہوجائیں کہ کسی کے مذہبی عقائد کی بناء پر اس کا قتل کرنے نکل پڑیں یا ان کے بات کرنے کے انداز سے ان کی ذہانت کا فیصلہ کریں۔یکسانیت اور ہم آہنگی کا مطلب برتری ہونا ضروری نہیں ہے۔ جب ہم ان باتوں سے آگے بڑھیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ مختلف النوع چیزوں میں ہمارے لیے کیا کیا موجود ہے، تو ہم جانیں گے کہ اندرونی طور پر ہم ایک دوسرے سے اتنے مختلف نہیں ہیں۔
جلد کی رنگت، لب و لہجہ، عقائد اور زبانیں ہماری شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں، ہماری مکمل شخصیت نہیں۔ اور اگر ہم پاکستانی دنیا میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور اپنی قومی شناخت پر فخر کرنا چاہتے یں، تو ہمیں اس کی انفرادیت اور اس کی تاریخوں پر فخر کرنا ہوگا۔ اور اس کے لیے پہلا قدم تمام زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔