لکھنؤ(ومل شکلا)این پی آر یا آدھار کارڈ نہیں ہے تو آپ کو سبسڈی نہیںملے گی۔ لکھنؤ میں ابھی تک صرف ۲۰فیصد افراد کے پاس آدھارکارڈ ہے۔ مارچ کے بعد ۸۰فیصد افراد کو کوئی سبسڈی نہیں ملنے والی۔ دسمبر ختم ہونے کو ہے لیکن ابھی تک یہ طے نہیں کہ آدھار کارڈ بنائے گا کون؟ تقریباً پانچ لاکھ افراد کے کارڈ تین ماہ میں بننا
ہیں اگر نہ بنے تو عوام کے مشتعل ہونے کا خطرہ ہے۔ میونسپل کارپوریشن، ضلع انتظامیہ اور محکمہ پیٹرولیم نے یہ حالات پیدا کئے ہیں۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ یہ ذمہ داری کون لے گا۔
سرکاری طریقہ کار عجب ہے۔ یہاں وہی ہوتا ہے جو افسر چاہتے ہیں۔ چاہے اس میں محکمہ کی شبیہ خراب ہو یا پھر حکومت کی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب پکوان گیس سبسڈی کو ہی لے لیجئے پورے ایک سال سے ہنگامہ ہے کہ اب سلنڈر پر دی جانے والی سبسڈی براہ راست آپ کے بینک اکاؤنٹ میں آئے گی اس میں آدھار کارڈ کا نمبر ضروری ہے اس کیلئے کیمپ لگیںگے اورلوگوںکو آدھار سے جوڑا جائے گا۔ یہ کام ہر حال میں دسمبر میں ہوجانا تھا لیکن ہوا کیا دسمبر گزر گیا لیکن ابھی تک صرف راجدھانی لکھنؤ میں ۲۰فیصد افراد ہی اسکیم کے اہل ہو سکے۔ جبکہ ۸۰فیصد افراد ابھی باقی ہیں۔
راجدھانی میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ گیس صارفین ہیں اب ذمہ دار یہ کہہ رہے ہیں کہ مارچ تک یہ کام مکمل ہو جائے گا۔ جب ذمہ داروں سے دریافت کیا گیا جو کام ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکا وہ تین ماہ میں کیسے ہوگا۔ تو افسران ایک دوسرے پر ذمہ داریوں کا الزام عائدکرنے لگے۔ میونسپل کارپوریشن کہتا ہے کہ گیس ایجنسی تعاون کرے۔ گیس ایجنسی کے ذمہ دار کہتے ہیں کہ ہم گیس تقسیم کریں یا پھر لوگوں کا رجسٹریشن کریں۔ پیٹرولیم محکمہ کے افسر کہتے ہیں کہ دونوں لوگ مل جل کر کام کریں۔ لیکن ان تینوں کی لڑائی میں گیس صارف ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا ہے کہ اسے کرنا کیا ہے۔ حالانکہ یو پی گیس تقسیم کار یونین کے صدر ڈی پی سنگھ کہتے ہیں کہ جو لوگ این پی آر کے ذریعہ اسکیم سے منسلک ہو گئے ہیں ان کی سبسڈی ان کے اکاؤنٹ میں آئے گی۔ جو لوگ اسکیم سے منسلک نہیں ہو پائے ہیں ان کو جس طرح سلنڈر دیئے جا رہے ہیں اسی طرح دیئے جائیںگے لیکن ان صارفین کو مارچ تک ہر حال میں ڈی بی ٹی ایس سے منسلک ہونا پڑے گا۔ لیکن کیسے؟ اس پر وہ بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔