ڈھاکا: بنگلہ دیش کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایک امام باڑہ میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔
پولیس کے مطابق مذکورہ حملہ ملک میں شیعہ کمیونٹی پر دوسرا حملہ ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پولیس افسر احسن حبیب کا کہنا ہے کہ ’متعدد حملہ آور امام باڑہ میں داخل ہوئے اور مرکزی دروازے کو بند کرنے کے بعد امام باڑہ کی عمارت میں موجود افراد پر فائرنگ کردی اور اس کے بعد فرار ہوگئے۔‘
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ 3 نوجوان حملہ آور امام باڑہ میں داخل ہوئے تھے اور انھوں نے عبادت میں مصروف افراد پر فائرنگ کی۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز پولیس نے بنگلہ دیش کے شمال مغربی ضلع بوگرا میں ایک دہشت گرد کو ہلاک کیا تھا جو گذشتہ ماہ ایک مزار پر بم حملے کا مرکزی ملزم بتایا جاتا ہے، اس بم حملے میں 2 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کا کہا ہے کہ مقامی عسکریت پسند گروپ جماعت المجاہدین ان حملوں میں ملوث ہے.
اس کالعدم گروپ کے 5 اراکین کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ ایک مرکزی ملزم اور گروپ کا سربراہ گذشتہ دنوں مقابلے میں ہلاک ہوچکا ہے۔
پولیس کے جوائنٹ کمشنر منیر السلام نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’گرفتار ہونے والے ملزمان متعدد مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جن میں پولیس چیک پوسٹ اور عاشورہ کے موقع پر اجتماعات پر حملے شامل ہیں۔‘
خیال رہے کہ بنگلہ دیش مں گذشتہ کچھ ماہ سے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں اب تک دو غیر ملکی، 4 سیکولر مصنف اور ایک پبلشر ہلاک ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ ان حملوں کی مبینہ ذمہ داری داعش کے عسکریت پسند نے قبول کی ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی عسکریت پسند گروپ مذکورہ ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔
یاد رہے کہ داعش نے 24 اکتوبر کو ڈھاکا کے ایک مزار پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جو بنگلہ دیش میں اہل تشیع کمیونٹی پر اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ملک میں عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہدایت دیتے ہوئے متعدد اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں پر 1971 کی جنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں جنگی جرائم کے ٹرائل کا آغاز کیا—رائٹرز۔