سعودی عرب نے لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے متعدد سینیر عہدے داروں پر مشرق وسطیٰ بھر میں طوائف الملوکی اورعدم استحکام پھیلانے سے متعلق سرگرمیوں میں ملوّث ہونے کے الزامات میں پابندیاں عاید کردی ہیں۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”حزب اللہ کی لبنان کی سرحد سے باہر ”شرپسندانہ” سرگرمیوں کے الزام میں یہ پابندیاں عاید کی گئی ہیں”۔ لبنانی ملیشیا شامی صدر بشارالاسد کی اتحادی ہے۔وہ شامی تنازعے میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور اس کے جنگجو اسدی فوج کے شانہ بشانہ باغی جنگجوؤں کے خلاف لڑرہے ہیں۔
سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ”مملکت اپنے دستیاب وسائل سے حزب اللہ کی دہشت گردی کی سرگرمیوں سے نمٹنے کا سلسلہ جاری رکھے گی اور اس سلسلے میں دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گی”۔
بیان کے مطابق :”جب تک حزب اللہ افراتفری اور عدم استحکام پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔دنیا بھر میں دہشت گردی کے حملے کرتی رہتی ہے اور مجرمانہ اور غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھتی ہے تو سعودی عرب بھی اس کے لیڈروں ،کارکنان اور اداروں کو دہشت گرد قرار دینے کا سلسلہ جاری رکھے گا”۔
سعودی عرب کی جانب سے عاید کردہ ان نئی پابندیوں کا اطلاق حزب اللہ کے حامیوں اور اس کے لیے کام کرنے والوں پر ہوگا۔مملکت کے قوانین کے تحت دہشت گرد قرار دیے گئے حزب اللہ کے عہدے داروں کے اثاثے منجمد کر لیے جائیں گے اور سعودی شہریوں پر ان کے ساتھ کسی قسم کے لین دین کی پابندی ہوگی۔
سعودی عرب نے حزب اللہ کے جن عہدے داروں اور کمپنیوں پر پابندیاں عاید کی ہیں۔ان کے نام یہ ہیں: علی موسیٰ دقدوق الموساوی ،محمد کوثرانی ،محمد یوسف احمد منصور ،اعظم تباجا اور ان کی سیاحتی کمپنی آل انماء اور اس کے ذیلی کمپنیاں ،قاسم ہوجیجی ،علی فوار اور ان کی کاریں مرمت کرنے کی کمپنی ،مصطفیٰ بدرالدین ،ابراہیم عاقل ،فواد شکر ،عبدالنور الشعلان ، محمد نجیب کریم اور محمد سلمان فواز۔
یادرہے کہ سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے مارچ 2014ء میں ملک اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والی متعدد تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اور مصر کی اخوان المسلمون بھی شامل تھی۔