لکھنؤ میٹرو ریل پروجیکٹ میں مسلسل ہو رہی تاخیر سے جہاں ایک جانب اس کے خرچ میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دوسری جانب اس کا اثر یہاں کے عوام پر بھی پڑے گا۔ جیسے جیسے پروجیکٹ کی لاگت بڑھے گی میٹروپولیٹن شہر ہونے کی وجہ سے عام آدمی کے ٹیکس میں بھی اضافہ ہوگا۔ ایل ایم آر سی کی جانب سے ابھی تک اس سلسلہ میں کسی بھی ایجنسی کا انتخاب نہیں کیا گیا ہے۔ گذشتہ برس دسمبر ماہ میں کام کی شروعات ہونا تھی لیکن کسی وجہ سے کام شروع نہیں ہو سکاہے اب ۶۲جنوری کی ماقبل شام سنگ بنیاد رکھنے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
آر وی این ایل اور ڈی ایم آر سی دونوں کے مابین کام کے سلسلہ میں معاملہ پھنسا ہو اہے انتظامیہ کی جانب سے اس
بات کی منظوری دیجانی ہے کہ ٹرن-کی کی بنیاد پر کس کمپنی کو کام سونپا جائے۔ ۱۱۰۲ء میں ڈی ایم آر سی نے یہاں پر ڈی پی آر تیار کیا تھا اور ایل ایم آر سی کی جانب سے چار کروڑ کی ادائیگی بھی ڈی ایم آر سی کو کی گئی تھی لیکن دہلی کی سابقہ حکومت کی منشا نہ ہونے پر ڈی ایم آر سی نے یہاں کام کرنے سے منع کر دیا تھا اب دہلی میں ’عاپ‘ کی حکومت ہے تو یہاں پر کام کرنے کیلئے ڈی ایم آر سی کی جانب سے اشارے مل رہے ہیں۔
۱۱۰۲ء میں میٹرو کے ڈی پی آر میں کام میں آنے والی لاگت ۲۱ہزار ۳۵۱ کروڑ تھی اگر یہاں کام جنوری میں نہیں شروع ہوپاتاہے تو اس میں تقریباً تین ہزار کروڑ کا اضافہ ہو جائے گا۔ راجدھانی میںمیٹرو کے کام کی شروعات میں حکومت کی جانب سے بجٹ میں ۰۵۲ کروڑ کا بندوبست کیا گیا ہے۔ پروجیکٹ کی نئی تجویز میں پی جی آئی، گومتی نگر توسیع، چنہٹ، راجہ جی پورم سے سہارا اسپتال، سیتاپور روڈ سے انجینئرنگ کالج تک، پالی ٹکنک چوراہے سے راجہ جی پورم چوراہے تک بھی لنک ہوگا۔
۱۱۰۲ء میں پروجیکٹ پر ۱۷۶۲۱ کروڑکے خرچ کا تخمینہ لگایا جا رہا تھا جس میں ۹۱۵۹ کروڑ میٹر و پر اور بقیہ ٹیکس پر خرچ ہونا تھا۔ بی ایس پی حکومت میں اس پروجیکٹ سے کنارہ کشی کئے جانے کی وجہ سے خرچ میں اضافہ ہو گیا۔ اب صرف میٹررو کوریڈور اور دیگر چیزوں پر ہی ۵۱ہزار کروڑ روپئے کے خرچ کا تخمینہ ہے۔ اتنا ہی نہیں تقریباً ایک ہزار کروڑ روپئے تو سیور ، بجلی اور پانی کی لائنوںکو شفٹ کرنے میں خرچ ہوںگے۔ ایل ایم آر سی کی جانب سے ٹرن-کی پر کام شروع کرنے کے سلسلہ میں ابھی کنسلٹنٹ کو ہی نہیں منتخب کیا جا سکا ہے جبکہ اس کے بعد ٹنڈرنگ کا عمل ہوگا تب کہیں جا کر کام شروع ہو سکے گا۔ وہیں سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ میٹروکی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا اثر راجدھانی کے شہریوں پر بھی پڑے گا۔