اقوام متحدہ کے تحت جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ نے واضح کیا ہے کہ ایران پر عاید عالمی اقتصادی پابندیوں کا اس کے چھے بڑی طاقتوں کے ساتھ جولائی میں طے پائے معاہدے کے تحت جنوری 2016ء کے آخر تک ختم ہونے کا امکان کم نظر آتا ہے۔
ویانا میں قائم بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل یوکی یا امانو نے برطانوی خبر رساں ادارے رائیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اگر تمام معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہتے ہیں تو ڈیڈلائن پر پورا اترا جاسکتا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے”۔
آئی اے ای اے ویانا معاہدے کے تحت ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی نگرانی اور اس کی رپورٹ دینے کی ذمے دار ہے۔اس ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا منگل کے روز اجلاس ہوا تھا جس میں ایران کے جوہری پروگرام پر قدغنوں کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
اس اجلاس کے بعد ایران نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ وہ دو سے تین ہفتوں میں اپنے جوہری پروگرام پر قدغنیں عاید کردے گا۔اس کے بعد یوکی یا امانو کا کہنا ہے کہ ان کی ایجنسی کو ان تحدیدات کی تصدیق کے لیے چند ہفتے اور لگیں گے۔
انھوں نے بدھ کے روز ایک انٹرویو میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ایران امریکا ،برطانیہ ،روس ،فرانس ،چین اور جرمنی کے ساتھ طے پائے معاہدے کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کررہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ”ہمارے معائنہ کار برسرزمین موجود ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ان کی رپورٹ کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایران بڑی تیزی سے سرگرمیاں انجام دے رہا ہے”۔تاہم انھوں نے ان سرگرمیوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے۔
معاہدے کے تحت ایران اپنی زیر زمین یورینیم افزودہ کرنے کی تنصیبات میں نصب سینٹری فیوجز مشینوں کی تعداد میں نمایاں کمی کرنے کا پابند ہے۔وہ آراک میں واقع جوہری ری ایکٹر سے ایک اہم کنٹینر کو ہٹائے گا اور افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو محدود کرے گا۔
آئی اے ای اے کے سربراہ کا پابندیوں کے خاتمے کی ڈیڈلائن سے متعلق کہنا تھا کہ ”اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ایران دو سے تین ہفتوں میں اپنی ابتدائی سرگرمیوں کی تکمیل کی منصوبہ بندی کررہا ہے تو میرے پاس اس پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے”۔
انھوں نے کہا کہ ”اگر تمام معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہتے ہیں تو سب کچھ درست انداز میں طے پاجائے گا لیکن اگر کسی جگہ کوئی رخنہ آجاتا ہے تو پھر زیادہ وقت لگے گا اور اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے”۔