لکھنؤ:ریاست کے کسی بھی تھانہ کی ذمہ داری ۵۸ برس سے زیادہ عمر والے کو نہیں دی جائے گی جبکہ داغدار تھانیدار بھی اس سے دور رکھے جائیں گے۔ ایک تھانے پر کسی بھی تھانیدار کی تعیناتی دو بار نہیں ہوگی۔ حالانکہ یہ حصول حکومت کے اعلانیہ میں ہے لیکن اپنے رسوخ کے سبب تھانیدار مسلسل ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں۔ وزراء اور لیڈران کی پسند والے اس طرح کے کافی داروغہ تھانوں پر قابض ہیں حالانکہ کئی ڈی جی پی ان ضابطوں کے سلسلہ میں احکامات جاری کر چکے ہیں لیکن وہ فائلوں میں ہی دب کررہ گئے۔ نئے ڈی جی پی جاوید احمد نے اس پر عمل درآمد کا تحیہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے احکام جاری کرکے پولیس کپتانوں کو سخت ہدایت دی ہے کہ اسے لازمی طور پر نافذ کیا جائے اور ان کے دفتر کو اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔ ڈی جی پی جاوید احمد کا یہ حکم پولیس کپتانوں کیلئے گلے کی پھانس بن گیا ہے۔ راجدھانی سمیت پوری ریاست میں ایسے تھانیداروں کی کمی نہیں جن کو پولیس سربراہ کے احکامات کے باوجود عمل نہ کرتے ہوئے بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ لکھنؤمیں دو تھانوں پر ایسے انسپکٹر کی تعیناتی ہے جو ۵۸ برس کی عمر مکمل کر چکے ہیں ان میں وزیر گنج کیے انسپکٹر جتیندر پال سنگھ اور اٹونجہ کے مکھ رام یادو شامل ہیں۔ مکھ رام یادو تو ملازمت سے سبکدوشی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اسی ماہ کی اکتیس تاریخ کو ان کی سبکدوشی ہونی ہے جبکہ جے پی سنگھ آئندہ برس اپریل میں سبکدوش ہوں گے۔ اسی طرح دو دیگر تھانوں پر بھی صورتحال یہی ہے۔ انسپکٹر چوک آئی پی سنگھ اور کوتوالی انچارج ششی کانت یادو یہاں دوبارہ تعینات کئے گئے ہیں۔ ان کی دوبارہ تعیناتی کی خاص وجہ محرم کے سلسلہ میں پرانے شہر کے قانون و انتظام کوپیش نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ آئی پی سنگھ کی علاقہ میں کافی رسائی ہے۔ ان کانظم بھی بیحد اچھا ہے۔ دونوں کوتوالی انچارج کئی برس محرم اور رمضان کے جلوسوں کو پُر امن طریقہ سے مکمل کرا چکے ہیں ان کی تعیناتی ڈی آئی جی کے حکم پر کی گئی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ ڈی جی پی کے ان احکامات پر کسی حد تک عمل ہوتا ہے حالانکہ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ریاست کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں ’ملائی دار‘ تھانوں پر ایسے ہی داروغہ اور انسپکٹروں کا قبضہ ہے۔ اس میں بارہ بنکی سر فہرست ہے جہاں ایسے تھانیداروں کی تعداد تین ہے ۔ چندولی کے دو سب سے اہم تھانوں پر ایس او اور ایس ایچ او یا تو ۵۸ برس کی عمر مکمل کر چکے ہیں یا پھر دو بارہ تعیناتی پر ہیں ہر ضلع کی یہی صورتحال ہے۔ ایسے افراد کو ہٹائے جانے پر کپتان کے پاس اوپر سے فوراً فون آنے لگتے ہیں۔ اب ڈی جی پی کے احکام پر عمل کس حد تک ہو پاتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی طے کرے گا۔