نیویارک ۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے نیویارک میں اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کے ساتھ براہراست ملاقات کی ہے اور یہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان 1979ء کے بعد پہلا براہ راست رابطہ ہے۔
ملاقات کے بعد جان کیری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ ایران کی جانب سے جوہری پروگرام کے بارے میں نئے مثبت لب ولہجے سے متاثر ہوئے ہیں لیکن یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ صرف ایک ملاقات اور تبدیل شدہ لہجے سے (ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق) ان تمام سوالوں کے جواب تلاش نہیں کیے جاسکتے۔اس لیے اس ضمن میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے”۔
ایرانی وزیرخارجہ نے بتایا کہ انھوں نے ملاقات کے دوران اس طرح کے تبادلہ خیال کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ پابندیوں کے جوابی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،اس لیے انھیں ختم کیا جانا چاہیے۔
دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے۔اس میں انھوں نے کہا کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر اچھے عقیدے کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کا عزم کررکھا ہے۔
حسن روحانی نےنیویارک میں ایک تھنک ٹینک ایشیا سوسائٹی اور کونسل برائے خارجہ تعلقات کے زیراہتمام فورم میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم مذاکرات کے ذریعے اور باہمی اتفاق رائے سے بحران کے قابل قبول حل کے لیے سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک ہونا چاہتے ہیں اور ایسا ہم نیک ارادے اور کاروباری ذہنیت کے ساتھ کریں گے”۔
انھوں نے کہا کہ اس مثبت، مضبوط اور ٹھوس قدم سے ہمیں بات چیت کو جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔ان سے جب واشنگٹن ٹائمز میں شائع ہونے والے ان کے ان ریمارکس کے بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ مہینوں میں جوہری پروگرام کے تنازعے پر ڈیل چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ”ایسا جتنا جلد ہو گا، اتنا ہی بہتر ہو گا اور ہمارے خیال میں تیز رفتار حل سے دونوں فریقوں کو مدد ملے گی”۔
واضح رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ایران کی مصالحانہ پیش کش کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے ساتھ سفارت کاری کے راستے کو آزمایا جانا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ صدر حسن روحانی کے مصالحانہ الفاظ کو اقدامات کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے اور یہ اقدامات شفاف اور قابل تصدیق ہونے چاہئیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی نئے تعلقات کا آغاز چاہتے ہیں۔تاہم انھوں نے امریکا کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دنیا کو یہ اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔