ایران کے سرکاری میڈیا نے گستاخ رسول برطانوی مصنف سلمان رشدی کے سر پر رکھی 1989ء میں رکھی گئی قیمت میں مزید چھ لاکھ امریکی ڈالر کا اضافہ کردیا ہے۔
ایران میں آنے والے 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ مسلمان اس ملعون مصنف کو جان سے ماردیں جس کے بعد سلمان رشدی کئی سالوں کے لئے روپوش ہوگیا تھا۔
ایران کی ایک امیر مذہبی تنظیم نے اس فتویٰ کی رو سے رشدی کو قتل کرنے والے کسی بھی شخص کے لئے 2٫7 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ سنہ 2012ء میں اس رقم کو بڑھا کر 3٫3 ملین ڈالر کردیا گیا تھا۔
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس نیوز نے 40 صحافتی اداروں کی لسٹ جاری کی ہے جنہوں نے اس نئی رقم کا اعلان کیا ہے۔ فارس نے خود اس میں 30 ہزار ڈالر کی رقم ڈالی ہے۔
اس انعامی رقم کا اعلان ایک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نمائش کے موقع پر کیا گیا جس کے منتظم منصور امیری کا کہنا تھا کہ “صحافتی اداروں چھ لاکھ ڈالر کی یہ انعامی رقم اس تاریخی فتویٰ کے 27 ساتھ مکمل ہونے پر جاری کی ہے تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ ابھی تک اس فتویٰ کے پیروکار موجود ہیں۔”
سنہ 1998ء میں ایران کی اصلاح پسند حکومت کے صدر محمد خاتمی نے اس فتویٰ سے دوری اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ رشدی کی جانب سے نو سال روپوشی میں گزارنے کے بعد اب خطرہ بہت کم ہوگیا ہے۔ رشدی کی اس کتاب کے جاپانی ترجمان کو 1991ء میں قتل کردیا گیا تھا اور اس کی اشاعت میں ملوث لوگوں پر حملہ ہوا تھا۔
مگر خمینی کے جانشین سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 2005ء میں اعلان کیا تھا کہ خمینی کا فتویٰ ابھی تک کارآمد ہےاور ایران کے تین عالموں نے بھی رشدی کے قتل کا مطالبہ کیا تھا۔