سماجی مساوات اور خوشحالی کے لیے سرگرم جرمن انجمن کے مینیجنگ ڈائریکٹر اُلرش شنائڈر نے نئی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں انہوں نے جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت کی نشاندہی کی ہے۔
یہ رپورٹ 2014ء میں کروائے جانے والے ایک مائیکرو سینسز یا مختصر مردم شماری کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت کا سب سے زیادہ شکار بچوں کی تنہا پرورش کرنے والے افراد، بے روزگار اور پینشن یافتہ ملازمین ہیں۔ 2014ء گرچہ اقتصادی نموں کے اعتبار سے جرمنی کے لیے بہت اچھا سال ثابت ہوا تھا تاہم اس کے اثرات غربت کی شرح میں کسی خاطر خواہ کمی کا سبب نہیں بن سکے اور 2003ء کے مقابلے میں غربت کی شرح میں محض 0,1 فیصد کمی آئی۔
مجموعی طور پر 15 فیصد سے زائد جرمن عوام کا شمار غربت کے شکار طبقے میں ہوتا ہے۔ یورپی سطح پر ان اعداد و شمار کے لحاظ سے جرمنی درمیانی پوزیشن پر ہے۔ دنیا کے دیگر نام نہاد مطلق غریب ممالک، جہاں انسانوں کی بقا کو خطرات لاحق ہیں، انہیں سر چھپانے کو جگہ اور پیٹ بھرنے کو غذا میسر نہیں، کے مقابلے میں جرمنی میں پائی جانے والی غربت کو ’آمدن کی غربت‘ کہا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین کے معیارات کے مطابق اس غربت کا شکار وہ تمام لوگ ہیں جن کی آمدن متوسط آمدنی کے 60 فیصد سے کم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں اس وقت بچے کی تنہا نگہداشت کرنے والی ایک خاتون کو 1192 یورو میں گزارا کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران پینشن یافتہ افراد میں غربت کے خطرات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور سے مغربی جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی ’رور ویلی‘ میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں غربت کے شکار پینشنرز کی شرح 20 فیصد ہے۔
بہبود اطفال کے جرمن ادارے ’کنڈر ہلفس ورک‘ DKHW نے جرمنی میں بچوں کی سماجی نشوو نما کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات کو ناکافی اور غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے معاشرتی سرگرمیوں میں بچوں کے لیے غیر مساوی مواقع کی نشاندہی کی ہے۔ اس ادارے کے صدر تھوماس کرؤگر نے کہا ہے کہ تنہا نگہداشت کرنے والوں، متعدد بچوں پر مشتمل خاندانوں اور تارکین وطن گھرانوں میں غربت کی شرح قریب 19 فیصد ہے۔
واضح رہے کہ 2014ء میں جمع کیے گئے یہ اعداد و شمار جرمنی میں مہاجرین کے سیلاب آنے سے پہلے کے ہیں۔