اس بات سے بے خبر کہ ایک دن وہ اپنی یونیورسٹی کی بھنگڑا ٹیم کی قیادت کرے گی، بھاوی وہرانے ایک بچی کے طور پر کیلی فورنیا کے شہر سان ہوزے میں گھریلو تقریبات میں بھنگڑا کرناشروع کیا۔ ایک بھارتی خاندان سے تعلق رکھنے والی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کی21 سالہ طالبہ نے کہا، “یہ ایک ایسی چیز تھی جسے کرنے میں مجھے لطف آتا تھا۔”
بھنگڑا رقص جنوبی ایشیاءمیں پنجاب کے علاقے سے شروع ہوا۔ یہ ہندوستان اورپاکستان میں موسیقی کی اقسام کا ایک لازمی جز ہے۔ کبھی یہ فصل کی کٹائی کی خوشی میں کیا جانے والا ایک علاقائی لوک رقص ہوا کرتا تھا۔ لیکن شہرت حاصل کرنے کے ساتھ یہ رقص شادیوں، سالگرھوں اور مقامی میلوں میںبھی شروع ہو گیا۔ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں ثقافت کو مغربی موسیقی کے ساتھ ضم کرتے ہوئے، بھنگڑے کا شوق آج سات سمندر پار تک پھیل چکا ہے۔
سینکڑوں دیگر نوجوانوں کی طرح،وہرانے ایک بڑی چیز کا حصہ بننے کے لئے کالج کی بھنگڑا ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔ اسے اپنی بھارتی ثقافت کے بارے میں جاننے کے عمل کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں اپنائیت کے ایک احساس کا بھی موقع ملا۔ پہلے پہل اس کو یہ احساس نہیں تھا کہ اس کے خاندان کے ارکان اور بھارتی کمیونٹی کے علاوہ دوسرے لوگ بھی بھنگڑے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس نے کہا، “مجھے حیرت ہوئی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔”
کیل بھنگڑا کے 21 سالہ شریک کپتان منریت سندھو کو اس وقت تک اپنے بھارتی ورثے کے ساتھ زیادہ لگاو¿ نہیں تھا جب تک اس نے ایک نوجوان کے طور پر یوٹیوب پر بھنگڑا کی ویڈیونہیں دیکھیں تھیں۔ رقص کے انداز اور موسیقی نے اسے اپنا گرویدہ بنا لیا۔
سندھو نے جو امریکہ میں پلا بڑھا اور جس کے والدین نے ہندوستانی پنجاب سے ہجرت کی تھی کہا، “میں پنجابی سیکھنا چاہتا تھا کیونکہ میں گانوں کو سمجھ نہیں سکتا تھا۔ یہ پہلی چنگاری تھی جو آگ میں تبدیل ہوگئی۔”
اس وقت امریکہ میں کالج کی سطح پر درجنوں بھنگڑا ٹیمیں موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر اس رقص کومقبول بنانے والے سخت مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں۔ کیل برکلے کے طلباءہفتے میں چار مرتبہ مسلسل دو سے تین گھنٹے تک اس کی مشق کرتے ہیں۔ اسکول کے ورزش کرنے والے ہال کے ساتھ واقع گاڑیاں کھڑے کرنے والی جگہ پر، وہ پٹس برگ میں طلباءکے زیر اہتمام “برگ میں بھنگڑا” کے نام سے منعقد ہونے والے مشہور مقابلے کی تیاری کے لئے، نئی تالوںپر مشق کرتے ہیں۔ وہ ہندوستانی یونیورسٹی ٹیموں کی ویڈیوز کا مشاہدہ کر تے ہیں اور ان سے نئی رقص بندی – ٹھوکر مارنا، جست لگانا اور جسم کو خم دینا -سیکھتے ہیں۔
اپنی لگن کی وجہ سے 2012 میں کیل بھنگڑا،امریکہ کے مغربی ساحل کی پہلی ٹیم تھی جس نے کالجوں کے مابین ہونے والا امریکہ کا سب سے پرانا ” بھنگڑا بلو آو¿ٹ “نامی مقابلہ جیتا۔ اکیس سال قبل شروع ہونے والا یہ مقابلہ، امریکہ میں طلباءکے زیر انتظام منعقد ہونے والی جنوبی ایشیاءکی سب سے بڑی تقریب ہے اور کالج کی سطح پر بھنگڑے کا سب سے بڑا مقابلہ ہے۔ کیل بھنگڑا ٹیم کے مفصل آٹھ-منٹوں کے اس معمول کے رقص کی خصوصیت صرف تیز تالیں ہی نہیں بلکہ ڈھول کی ہم آہنگ تھاپ اور شوخ رنگوں میں روایتی کپڑے بھی ہیں۔ رقاص” ساپ” جیسے آلات بھی استعمال کرتے ہیں جو اکارڈین باجے کی طرح کھلتا اور بند ہوتا ہے اور طوفان جیسی آواز نکالتا ہے۔ جس سے پنجاب میں فصل کی کٹائی کے میلے بیساکھی میں بھنگڑے کی جڑوں کا پتہ چلتا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی جنوبی ایشیائی سوسائٹی کے ساتھ مل کر چار سالوں تک بھنگڑا بلو آو¿ٹ کا انتظام کرنے والی امیتا آچوتونی کا کہنا ہے، ” طلباءکے لئے یہ اچھی بات ہے کہ وہ اپنی ثقافت میں دوسرے طلباءکو شامل کریں۔”کیل بھنگڑا” جیسی ٹیمیں افریقی نڑاد امریکیوں، سفید فاموں، اور فلپائنیوں کا بھی خیر مقدم کرتی ہیں۔
لوگوں کی وسیع ترتعداد تک پہنچنے کے ساتھ ، بھنگڑا ایک مخصوص حلقے سے نکل کر اب مرکزی دھارے میں شامل ہوچکا ہے۔ 2009 میںشمالی کیلی فورنیا میں قائم” بھنگڑا ایمپائر”نے، صدر اوباما اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے صدارتی عشائیے میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ گروپ “امریکہ گاٹ ٹیلنٹ” نامی حقیقت پر مبنی مشہور ( ریئلٹی) شو میں بھی شرکت کر چکا ہے۔
اس گروپ کی شریک بانی مشیپپنیت مرزا، جن کے والد پنجابی اوروالدہ کاکیشیائی ہیں‘ نے کہا، “ہمارا مشن ہمیشہ بھنگڑے کو عام کرنا اور اپنی ثقافت میں ان لوگوں کو شامل کرنا ہے جنہیں اس کے بارے میں علم نہیں۔”
نیو یارک میں، این وائی سی بھنگڑاکی “ممی اینڈ می” (امی اور میں) نامی کلاسیں ہوتی ہیں، جن میں کم سن ترین طلباءکی عمر 2 سال ہوتی ہے۔ ایک نوجوان کے طور پر بھارت سے امریکہ ہجرت کرنے والی میگھا کالیا نے یہ گروپ قائم کیا تھا۔ وہ امید کرتی ہیں کہ مزید لوگ بھنگڑا شروع کریں گے۔ انہوں نے کہا، “چاہے آپ کے دو بائیں پاو¿ں ہوں، تب بھی آپ بھنگڑا ڈال سکتے ہیں۔”
——————————-
امریکی کالجوں میں چوٹی کے بھنگڑا مقابلے
– یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلیس ، “بروئن بھنگڑے “کا اہتمام کرتی ہے اور یہ مغربی ساحل کے بڑے مقابلوں میں سے ایک ہے۔ موسم بہار میں یہ تین دن تک جاری رہتا ہے۔
– “ڈھول دی آواز” کی میزبانی شمالی کیلی فورنیا میں یو سی برکلے کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے “ڈھول کی آواز” (موسم خزاں)۔
– “برگ میں بھنگڑہ” کے مقابلے کا انتظام پٹس برگ میں کارنیگی میلن یونیورسٹی کرتی ہے اور ایک مقامی خیراتی ادارے کے لئے چندہ جمع کرتی ہے (موسم خزاں)۔
– “بھنگڑا بلو آو¿ٹ” کا انتظام واشنگٹن میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی جنوبی ایشیائی سوسائٹی کرتی ہے۔ امریکہ میں کالج کی سطح پر ہو نے والا بھنگڑے کا یہ پہلا مقابلہ تھا۔ (موسم بہار)۔
بھنگڑے کی موسیقی
آج کل کے روایتی بھنگڑے کی موسیقی اکثر پاپ کا مرکب ہوتی ہے۔ ریپر مسی ایلیٹ نے 2001 میں اپنے انتہائی مقبول دل میں اتر جانے والے گانے “گیٹ یور فریک آن” میں بھنگڑا کی خوش کن سروں کے ساتھ نئی روح پھونکی۔ بین الاقوامی طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والا ایک نسلی طور پر متنوع “ریڈ برات” نامی بینڈ فنک، جاز، ہپ ہوپ اور بھنگڑا کوایک دوسرے میں ضم کرتا ہے۔
بھنگڑے میں استعمال کیے جانے والے روائتی آلات میں شامل ہیں:
ڈھول: دو طرفہ طبل جس پر تھاپ لگائی جاتی ہے۔
چمٹا: گھنٹیوں والی ایک چھڑی۔
تومبی: ایک تار والا آلہ۔
الغوزے یا الغوزہ: بانسری نما آلات کا ایک جوڑا۔
٭٭٭