لندن: لاطینی امریکہ سمیت کئی ممالک میں خوفناک شکل اختیار کرنے والے زیکا وائرس کے سلسلے میں محققین نے ایک نئی تحقیق میں دعوی کیا ہے کہ یہ وائرس نوزائیدہ بچوں کے تیار ہوتے دماغ کے خلیات کو تباہ کرتا ہے ۔
سیل اسٹیم سیل جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں ڈاکٹروں کا دعوی ہے کہ زیکا وائرس کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کے دماغ کے خلیے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی نشونما میں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔
تحقیق کرنے والی ٹیم میں شامل پروفیسر گیو لی منگ کا خیال ہے کہ یہ تحقیق زیکا وائرس اور غیر معمولی سائز کے دماغ کے درمیان تعلقات کو سمجھنے کی سمت میں پہلا قدم ہے ۔ برازیل میں اس طرح کے 4800 سے زائد معاملات کی توثیق کی گئی ہے جہاں نوزائیدہ بچوں کے دماغ کا سائز چھوٹا پایا گیا ہے ۔
برازیل ان لاطینی امریکی ممالک میں شامل ہے جہاں کچھ ماہ پہلے زیکا وائرس کا انفیکشن بڑھ گیا تھا۔ تاہم امریکہ کے محققین نے اس رپورٹ کی باتوں کو حتمی ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیق کا یہ نتیجہ آخری اور فیصلہ کن نہیں سمجھا جانا چاہیے ۔ امریکی محققین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے سائنسی طور سے تصدیق نہیں کی گئی ہے ۔ لاطینی امریکا کے ملک برازیل میں اس مرتبہ کا سالانہ کارنیوال دنیا بھر کے لیے ‘زیکا وائرس’ کی شکل میں ٹائم بم بن سکتا ہے ۔ یہ وائرس رحم مادر میں انسانی جنین اور اس کے دماغ تک کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے ۔
سرکاری طور پر ہفتے کے روز شروع ہونے والے اس سالانہ کارنیوال میں ملک کی آدھی سے زیاہ آبادی یعنی تقریباً 10 کروڑ افراد سڑکوں، میدانوں اور ساحلوں پر نکل آتے ہیں اور پھر اگلے 5 روز تک دن رات رقص اور دیگر تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس دوران لوگوں کی بڑی تعداد آپس میں لاکھوں بوسوں کا اندھادھند تبادلہ بھی کرتی ہے ۔
اس مرتبہ سائنس دانوں نے سخت تنبیہہ کی ہے کہ زیکا وائرس انسانی جسم کے سیال مادوں سے منتقل ہوتا ہے جس میں انسانی لعاب اہم ترین ہے ۔
برازیل میں اب تک دو مریضوں کے لعاب اور پیشاب میں اس وائرس کا انکشاف ہوچکا ہے جس کے بعد وہاں کے سائنس دانوں نے چند روز قبل خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ادھر امریکی طبی ماہرین نے حاملہ خواتین کی نگرانی کے لیے سخت اقدامات پر زور دیا ہے اور ساتھ ہی حاملہ خواتین کو ہدایت کی ہے کہ وہ کارنیوال کے دوران بوسوں سے گریز کریں تاکہ وائرس سے بچا جاسکے ۔ذرائع کے مطابق برازیل میں حکومت کی جانب سے نشر کیے جانے والے اعلانات اور اشتہارات میں خواتین کو اجنبی افراد کے بوسوں کے خطرے سے خبردار کیا ہے ۔ سان پاؤلو میں ملک میں طبی تحقیق کے اعلی ترین ادارے ‘اوزوالدو کروز’ کے سائنس دانوں نے قبل ازیں حکومت کو اپنے ان تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کردیا تھا جو انہوں نے تجربہ گاہوں میں کیے ۔ اس دوران ان دو مریضوں کے نمونے لے کر ان کا جینیاتی ٹسٹ کیا گیا جن پر اس وائرس کی علامتیں ظاہر ہوئی تھیں۔ بعد ازاں ان کے زیکا وائرس سے متاثر ہونے کا توثیق ہوئی جو کہ عام طور پر مچھر کے ذریعے منتقل ہوتا ہے ۔سال 2014ء میں برازیل میں فٹ بال کے عالمی کپ کے دوران اس وائرس سے متاثرہ لوگوں (بالخصوص افریقی ممالک سے ) ایک بڑی تعداد میچوں کو دیکھنے کے لیے آئی تھی۔ اس کے نتیجے میں وہاں تیزی کے ساتھ “زیکا” پھیل گیا اور بعد ازاں مچھروں، جنسی تعلقات اور بوسوں کے ذریعے اس نے پورے براعظم کو ہی لپیٹ میں لے لیا۔ ادھر زیکا وائرس کو چھوٹے اور پچکے ہوئے سر کے ساتھ بچوں کی پیدائش سے جوڑ دینے کی وجہ سے دنیا بھر میں شدید نوعیت کے اندیشے پھیل گئے ۔
قبل ازیں پیش کی جانے والی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ زیکا وائرس دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے عمومی حجم سے چھوٹا رہ جاتا ہے ۔ اس وائرس کا پہلی مرتبہ انکشاف 1947 میں یوگنڈا کے جنگل “زیکا” میں بندروں کے خون میں ہوا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کی برازیل میں شاخ نے خاص طور پر مطالبہ کیا تھا کہ حاملہ خواتین رقص کرتے وقت جم ِ غفیر میں نہ داخل ہوں جہاں ان کے اور اجنبی افراد کے درمیان بوسے کا تبادلہ ہونے کا اندیشہ ہو۔صحت کے عالمی ادارے نے اعلان کیا ہے کہ زیکا وائرس بین الاقوامی سطح پر ہنگامی حالت کی نمائندگی کررہا ہے ۔ انسانی جنین کو مسخ کرنے کی حالتوں سے تعلق ہونے کے شبہے کی وجہ سے یہ صحت عامہ کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے ۔ یہ ایسی بیماری ہے جس کا ابھی تک کوئی علاج یا ویکسینیشن نہیں ہے ۔ براعظم امریکا کے 26 ممالک میں پھیل جانے کے بعد اس کے دیگر براعظموں کی سرحدیں عبور کرجانے کا خطرہ ہے ۔دریں اثنا سابق اداکارہ کیلی میری نے انکشاف کیا ہے کہ 9 برس قبل ان پر زیکا وائرس کا حملہ ہوا اور اس بیماری کے نتیجے میں وہ دونوں ٹانگوں سے مفلوج ہوگئیں۔کیلی میری نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ان دنوں ڈومینیکن ریپبلک میں تھیں اور چار ماہ کی حاملہ تھیں انھوں نے بتایا کہ بیماری کے باعث ان کے پیٹ میں موجود بچی کو بھی بچایا نہیں جاسکا تھا جس کا انھیں آج بھی بہت ملال ہے ۔کیلی میری نے بتایا کہ جن ملکوں میں زیکا وائرس موجود ہے وہاں جانے سے گریز کیا جائے اور اس موذی بیماری سے ہر ممکن طور بر بچا جائے ۔زیکا وائرس کی صورت میں دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان کو بھی انسانی صحت اور زندگی سے متعلق ایک اور بڑے خطرے کا سامنا ہے ۔ اس وقت زیکا وائرس سے سب سے زیادہ متأثرہ ملک برازیل، اس کے بعد کولمبیا و دیگر ممالک بتائے جارہے ہیں۔ طبی سائنس کے مطابق زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جانے والا ‘ایڈس ایجپٹائی’ نامی مچھر اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ ہے ۔ یہ مچھر صاف پانی میں پرورش پاتا ہے ۔ زیکا وائرس پھیلانے والے اس مچھر کے جسم پر سیاہ اور سفید نشانات ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیکا وائرس انسانی جسم میں ایک ہفتے تک زندہ رہنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے ۔ یہ مچھر زیادہ تر دن کی روشنی میں متحرک رہتا ہے اور اس دوران کسی بھی انسان کو کاٹنے پر زیکا وائرس اس کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے ۔
طبی ریسرچ کے مطابق اگر یہ مچھر حاملہ عورت کو کاٹ لے تو اس کے پیٹ میں موجود بچہ مائیکرو سیپلے نامی ایک بیماری کا شکار ہوسکتا ہے جس سے بچے کے دماغ کی نشوونما رک جاتی ہے اور وہ ذہنی اور جسمانی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ زیکا وائرس سے انسان کو محفوظ رکھنے اور اس کے خاتمے کے لیے طبی محققین اب تک کوئی ویکسین یا دوسرا طریقۂ علاج دریافت نہیں کرسکے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق زیکا وائرس سے متاثرہ فرد بخار کے ساتھ اعصاب اور جوڑوں کے درد، آنکھوں میں جلن کی شکایت کرسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ سَر درد اور بعض صورتوں میں جلد پھٹنے لگتی ہے یا اس پر سرخ نشانات نمودار ہونے لگتے ہیں۔ اکثر نزلہ زکام کے بعد بھی اس خطرناک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور ایسے مریضوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ زیکا وائرس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق مچھروں کی مختلف اقسام دنیا میں انتہائی خطرناک اور مہلک بیماریاں پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، جن سے بچاؤ اور ان کا مکمل علاج فی الوقت موجود نہیں ہے ۔