جب ڈاکٹروں نے آسٹریلیا کے گریگ جیفرز کو یہ بتایا کہ وہ ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہے اور یہ بیماری اس کے جگر کو تباہ کر رہی ہے تو یہ خبر اس کے لیے ایک دھچکے سے کم نہ تھی لیکن اس سے بڑا مسئلہ دوائی کی قیمت تھی۔
ہیپاٹائٹس سی کے علاج کے لیے جادوئی دوا کا نام ’سوالڈی‘ ہے لیکن اکسٹھ سالہ جیفرز کے لیے اسے خریدنا ناممکن تھا۔ سستی دوا خریدنے کے لیے جیفرز نے بھارت کا سفر کیا، جہاں ’سوالڈی‘ کی قیمت آسٹریلیا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی، کینسر اور ایچ آئی وی کے مریضوں کی آخر امید بھارت بنتا جا رہا ہے کیوں کہ یہ ملک ان بیماریوں کے خلاف سستی دوائیاں فراہم کر رہا ہے۔
دنیا بھر سے ایسے مریض بھارت میں موجود انڈر گراؤنڈ ’’خریدار کلبوں‘‘ سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ ان کا مصدقہ ڈسٹری بیوٹرز سے رابطہ ممکن ہو سکے اور وہ بذریعہ ای میل دوائیاں بھیجنے کا وعدہ کرنے والے نقالوں سے بچ سکیں۔
آسٹریلیا کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ جیفرز کا نیوز ایجنسی اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے ایک انٹرنیٹ فورم پر کرتے ہوئے علم ہوا کہ بھارت سوالڈی دوائی کا ایک نیا ورژن ریلیز کرنے والا ہے۔ اس کے فوری بعد میں نے چنائے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا اور دو دن کے اندر اندر مجھے ایک اسپیشلسٹ سے اپوائنٹمنٹ بھی مل گئی۔‘‘
بھارت کو ’’ترقی پذیر دنیا کے لیے فارمیسی‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ سوالڈی نامی دوائی امریکا کا مشہور دوا ساز ادارہ گیلیڈ تیار کرتا ہے اور بارہ ہفتوں کے مکمل کورس کے لیے اس کی قیمت چوراسی ہزار ڈالر ہے۔ بھارت نے اس امریکی کمپنی کو اس دوائی کے لیے مالکانہ حقوق کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا گیا تھا جس کی بعد اس ادارے نے بھارت کے مقامی ادارے کے ساتھ مل کر یہ دوائی ’’مائی ہیپ‘‘ کے نام سے لانچ کی تھی۔ اب بارہ ہفتوں کے مکمل کورس کی قیمت نو سو ڈالر سے بھی کم بنتی ہے۔
بھارت میں دوائیوں کے لیے رسائی کے حق میں مہم چلانے والی بین الاقوامی تنظیم ایم ایس ایف کی سربراہ لینا مینگانے کہتی ہیں، ’’ اب زیادہ سے زیادہ یہ بات نوٹ کی جا رہی ہے کہ ہر طرح کے لوگ اور مریض دوائیاں حاصل کرنے کے لیے بھارت سے رابطہ کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یا تو وہ خود بھارت کا سفر کرتے ہیں یا پھر یہاں موجود اپنے دوستوں سے رابطہ کرتے ہیں۔‘‘
دنیا بھر میں ایک سو تیس ملین سے زائد افراد ہیپاٹائٹس سی کی بیماری میں مبتلا ہیں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس بیماری سے سالانہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ لاکھ بنتی ہے۔
جیفرز کے مطابق اس نے جب سے بھارت میں اپنے علاج کے بارے میں ایک بلاگ لکھا ہے، اس کے بعد سے تقریباﹰ ایک سو پچاس افراد مدد کے لیے اس سے رابطہ کر چکے ہیں۔ بھارت میں بنائی جانے والی یہ دوائی ہفتہ وار بنیادوں پر ہزاروں مریضوں کی زندگیاں محفوظ بنا رہی ہے۔