نیویارک، لندن: عراق اور شام کی شدت پسند تنظیم داعش (الدولۃ الاسلامیہ عراق و شام) کے اہم ترین جنگجو کمانڈر عمر الشیشانی کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 9 مارچ کو شام کے صوبے الحسکہ کے قصبے الشدادی میں ڈرون حملے کے نتیجے میں داعش کے ‘وزیر جنگ’ کہلانے والے عمر الشیشانی کی ہلاکت کی اطلاع سامنے آئی تھی، بعد ازاں شام میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے برطانوی مانیٹرنگ گروپ نے کہا تھا کہ امریکی فضائی کارروائی کے دوران ابو عمر الشیشانی ہلاک نہیں بلکہ ‘شدید زخمی’ ہوئے.
تاہم اب امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے والے 2 حکام نے ابو عمر الشیشانی کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ امریکی فضائی کارروائی میں داعش کے اہم کمانڈر زخمی ہوئے تھے، جو اب ہلاک ہوچکے ہیں، تاہم ان کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ابو عمر الشیشانی کے ہمراہ داعش کے دیگر 12 افراد کی ہلاکت کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔
سی این این کے مطابق جس وقت ابو عمر الشیشانی کو ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا وہ شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کر رہے تھے، امریکا کی جانب سے ابتداء میں ہلاکت کا دعویٰ اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ ان کا کمیونیکیشن نظام مکمل طور پر خاموش ہو گیا تھا جس سے امریکی حکام یہی سمجھے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
ابو عمر الشیشانی رقہ کے غیر اعلانیہ دارالحکومت الشدادی میں داعش کے جنگجوؤں سے ملاقات کے لیے گئے تھے، اس علاقے میں اتحادی ممالک کے ڈرون حملوں اور فضائی کارروائی کے ذریعے شدت پسند تنظیم کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔
دوسری جانب برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق لندن میں قائم شام کی انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رمی عبد الرحمٰن کا کہنا تھا کہ الشیشانی اب سانس لینے کے قابل نہیں ہیں، ان کو مصنوعی طریقے سے زندہ رکھنے کے لیے طبی مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے، وہ کئی روز پہلے طبی طور ہلاک ہو چکے ہیں۔
واضح امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا ماننا ہے کہ شام میں امریکا کی اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست کے بعد الشیشانی کو داعش کی مدد کے لیے بھیجا گیا.
9 مارچ کو پہلی بار الشیشانی کی ہلاکت کی اطلاع سامنے آنے کے بعد پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے بتایا تھا کہ امریکی فوج کی فضائی کارروائی کے نتائج اہمیت کے حامل ہوں گے، الشیشانی کی ہلاکت سے داعش کی رابطوں اور مضبوط ٹھکانوں کی حفاظت کی صلاحیت متاثر ہوگی جبکہ غیر ملکی جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے عمل کو بھی نقصان پہنچے گا.
الشیشانی کو پینٹاگون کی جانب سے داعش کا ‘وزیرِ جنگ’ قرار دیا گیا، جو شام اور عراق میں متعدد مقامات پر داعش کے جنگجوؤں کی سربراہی کرچکے ہیں.
ابو عمر الشیشانی امریکا کو مطلوب عسکریت پسندوں کی فہرست میں شامل تھے، جن کی اطلاع دینے پر 5 ملین ڈالر (تقریباََ 52 کروڑ پاکستانی روپے) کی پیشکش کی جاچکی ہے.
وہ روس میں بھی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں.
کہا جاتا ہے کہ داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی، الشیشانی پر کافی بھروسہ کرتے تھے.
یاد رہے کہ داعش نے جون 2014 میں شام اور عراق میں وسیع رقبے پر قبضہ کرکے وہاں خود ساختہ خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا اور ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا۔
جس کے بعد امریکا نے اگست 2014 میں داعش کے خلاف فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں اب فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی شامل ہو چکے ہیں لیکن تاحال داعش کا خاتمہ یا کنٹرول ممکن نہیں ہو سکا ہے جبکہ داعش کی جانب سے یورپ میں جنگجوؤں کے ذریعے حملوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں.