نئی دہلی:نائب صدر حامد انصاری نے اسکول کی تعلیم کے معیار اور فنڈ کی کمی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مفت اور لازمی تعلیم کے حق سے متعلق قانون کے بہتر نفاذ کے لئے منریگا کی طرح اس قانون کا بھی خاص طور پرآڈٹ کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ ڈاکٹر انصاری نے آج یہاں تعلیم کے حق سے متعلق قانون کے چھ سال پورے ہونے کے موقع پر منعقد ایک قومی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے
یہ بات کہی۔ کانفرنس میں تعلیم کے حق سے متعلق قانون کے نفاذ پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ کانفرنس کا انعقاد حق اطلاعات (آر ٹی آئی) فورم نے کیا ہے ۔نائب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ تعلیم کے حق سے متعلق قانون کا نفاذ صرف آزادی کے بعد ملک کا سب سے بڑا واقعہ نہیں ہے
بلکہ دنیا کا ایسا پہلا قانون ہے جو بنیادی تعلیم کی پوری طرح ذمہ داری حکومت کو دیتا ہے لیکن اس کے چھ سال پورے ہونے کے باوجود اس میںمتعدد کمیاں ہیں۔ آج ملک میں دیہی اور شہری تعلیم کے درمیان کھائی بنی ہوئی ہے اور امیر اور غریب بچوں کی تعلیم میں فرق بنا ہوا ہے ۔ اسکولوں میں داخلوں میں اضافہ ہونے کے بعد بھی ڈراپ آؤٹ کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ ساٹھ لاکھ بچے ہندوستان میں ہی اسکول سے باہر ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ مسٹر انصاری نے کہا کہ ان میں 76 فیصد بچے دلت اور قبائلی نیز اقلیتی معاشرے کے ہیں۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک بھی جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 66 فیصد بچے سرکاری اور حکومت کی حمایت یافتہ اسکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا 3.5 فیصد سے بھی کم ہے جو اب بھی قومی تعلیمی پالیسی میں مقررہ چھ فیصد سے کافی کم ہے ۔ اتنا ہی نہیں پانچ سال میں سروشکچھا ابھیان کے بجٹ میں بھی چھ فیصد کی کمی آئی ہے ۔ 2012-13 میں 23873 کروڑ سے گھٹ کر 2016-17 کے بجٹ میں 22500 کروڑ روپے ہو گیاہے ۔ 2015-16 میں گزشتہ سال ستمبر تک اس ابھیان کے لئے بجٹ کی 57 فیصد رقم ہی جاری ہو پائی۔نائب صدر محمد حامد انصاری نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں سرو شکشا ابھیان میں 1،15،625 کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود معیار کا سوال بنا ہوا ہے ۔ سال 2012 کی گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق ہندوستان 120 ممالک میں تعلیم کے میدان میں 102 ویں نمبر پر ہے ۔ 6 سے 14 سال کے بچوں میں کتابیں پڑھنے ، لکھنے اور سمجھنے اور دیگر طرح کی مہارت میں کمی آئی ہے جو تشویش کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں ٹیچروں کی کمی اور تربیت کے فقدان میں بھی معیار متاثر ہو رہے ہیں۔پانچ لاکھ اساتذہ کے عہدے خالی ہیں اور 6 لاکھ 60 ہزار اساتذہ کو تربیت بھی نہیں دی جا سکی ہے ۔ دس فیصد اسکولوں میں صرف ایک استاد ہے ۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں 15 فیصد سے لے کر جھارکھنڈ میں 42 فیصد اساتذہ اسکولوں سے غائب رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اچھے اساتذہ کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ان کی تنخواہ اچھی ہو اوران کی بہترانداز میں تقرری کی جائے ۔تعلیم کے حقوق سے متعلق قانون کے نفاذ کی نگرانی ریاست کے تعلیمی محکموں کی ہے پر اس کو منریگا کی طرح آڈٹ کرائے جانے کی ضرورت ہے ۔ آر ٹی آئی فورم کے صدر اور سابق خارجہ سکریٹری مچکند دوبے نے کہا کہ ہندوستان کو عظیم اور ترقی پذیر قوم بنانے کے لئے اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اسے مضبوطی سے قائم کرنے کے لئے تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی قوم تعلیم کے بغیر تیار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اس کے لئے پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا۔ کانفرنس کو نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل اینڈ پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن(این یو ای پی اے )کے پروفیسر جے وی جی تلک اور آر ٹی کے کنوینر امبریش رائے اور یونیسیف کے ہندوستان کے نمائندے لیوس جارج اسینالٹ نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں مشہور ماہر اقتصادیات جیتی گھوش، پروین جھا، آر گووندا، شانتا سنہا جیسے ماہر تعلیم حصہ لے رہے ہیں۔