نئی دہلی : ہولی کے موقع پر بازار چینی رنگوں، گلال اور پچکاریوں سے بھرے پڑے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو مصنوعات سازوں کو 75 فیصد تک نقصان ہو رہا ہے ۔
صنعتی تنظیم ایسوچیم کی طرف سے آج جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رنگوں کے تہوار سے پہلے مارکیٹ پر چینی رنگ اس قدر چڑھ چکا ہے کہ اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات اور دیگر ریاستوں میں ان کی خوب مانگ ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے حکومت کی ‘میک ان انڈیا’ کو فروغ دینے کی کوششوں کے باوجود چین سے درآمد فینسی اور نئے نئے قسم کے ہولی کے کھلونے اور رنگ دہائیوں سے یہ کاروبار کرنے والے مقامی مصنوعات سازوں کے وجود کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ وہ صرف اپنا ایک چوتھائی مال ہی فروخت کر پا رہے ہیں۔ایسوچیم کے مطابق، ہندستانی رنگوں اور پچکاریوں کے مقابلے میں چینی مصنوعات اوسطا 55 فیصد سستی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چینی مصنوعات کی مارکیٹ میں زبردست مانگ ہے ۔ مختلف شہروں کے قریب ڈھائی سو مقامی مصنوعات سازوں، افراد، دکانداروں اور سپلائرز کے ساتھ بات چیت کے بعد تنظیم نے یہ بات کہی ہے ۔بیشتر تر تاجروں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ سے اب روایتی پچکاری تقریبا مکمل طور غائب ہو چکی ہے . وہیں، چین میں بنے ہولی کے کھلونوں اور رنگوں کے سستا ہونے کی وجہ سے ان رنگوں میں نقصان دہ کیمیکل کے استعمال کے باوجود گاہکوں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ مقامی مصنوعات سازوں کا کہنا ہے کہ چینی رنگوں میں تیزاب، ڈیزل، انجن آئل، کانچ کا چورن، مائکا اور دیگر نقصان دہ کیمیکل ملائے جاتے ہیں جو جلد کے لئے نقصان دہ ہیں۔ ساتھ ہی پچکاری کی جگہ لینے والے چینی کھلونوں کو بنانے کے لئے بھی سستے پلاسٹک کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ صرف قدرتی رنگ فروخت کرتے ہیں جو جلد کو نقصان نہیں پہنچاتے ۔کچھ مصنوعات سازوں نے پانی میں گھل جانے والے قدرتی رنگوں کے مہنگا ہونے کو بھی اپنے کاروبار میں مندی کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک میں ہر برس پانچ ہزار سے زیادہ مصنوعات ساز ہولی کے موقع پر پانچ لاکھ کلو گرام سے زیادہ گلال بناتے ہیں۔ دو لاکھ کلو گرام سے زیادہ گلال کی کھپت تو صرف اتر پردیش میں ہو جاتی ہے ، کیونکہ اس ریاست میں بنارس، گوکل، گووردھن،متھرا،نندگاوں، ورندا ون اور الہ آباد کے علاقوں میں ہولی کے موقع پر جم کر گلال اڑائے جاتے ہیں۔