جموں : پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے پیر کے روز ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی پہلی مسلم خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔56 سالہ محبوبہ مفتی کو یہاں راج بھون میں ریاستی گورنر این این ووہرا نے جموں وکشمیر کی 13 ویں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے اور رازداری کا حلف دلایا۔ وہ ہندوستان کی 16 ویں خاتون اور دوسری مسلم خاتون وزیر اعلیٰ بن گئی ہیں۔ اُن سے قبل کانگریس لیڈر سیدہ انور تیمور 6 دسمبر 1980 ء کو آسام کی وزیر اعلیٰ بنی تھیں-محبوبہ مفتی کے علاوہ اُن کی کابینہ کے 22 وزراء کو بھی عہدے اور رازداری کا حلف دلایا گیا۔ اِن میں سے دونوں جماعتوں پی ڈی پی اور بی جے پی سے گیارہ گیارہ ممبران شامل ہیں۔
پی ڈی پی کی طرف سے ڈاکٹر حسیب درابو، عبدالرحمان ویری، عبدالحق خان، غلام نبی لون، سید بشارت بخاری، سید نعیم اختر اندرابی، چودھری ذوالفقار علی، عمران رضا انصاری، سید فاروق احمد اندرابی، ظہور احمد میر اور آسیہ نقاش جبکہ بی جے پی کی طرف سے ڈاکٹر نرمل سنگھ، چندر پرکاش، بالی بھگت، لال سنگھ، سیرنگ ڈورجے ، شام لال چودھری، عبدالغنی کوہلی، سنیل کمار شرما، پریا سیٹھی، اجے ناندااور پیپلز کانفرنس (پی سی) سربراہ سجاد غنی لون نے عہدے اور رازداری کا حلف اٹھایا۔اس طرح سے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں مسلسل دوسری دفعہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد پر مبنی مخلوط حکومت معرض وجود میں آگئی جبکہ پی ڈی پی کی وساطت سے بی جے پی دوسری مرتبہ ریاست میں حکومت کا حصہ بن گئی۔ ریاست میں سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے ایک روز بعد یعنی 8 جنوری کو گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا۔ محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ ملک کے پہلے مسلم وزیر داخلہ بنائے گئے تھے ۔ راج بھون میں نئی حکومت کی تقریب حلف برداری سادگی کے ساتھ سرانجام دی گئی۔ اگرچہ بی جے پی ریاستی اکائی کے صدر ست شرما نے گذشتہ روز کہا تھا کہ محبوبہ مفتی کابینہ میں تبدیلی کے لئے نہیں جائیں گی بلکہ سابق پی ڈی پی اور بی جے پی مخلوط حکومت میں شامل کابینی وزراء کی ٹیم کو ہی برقرار رکھیں گی لیکن جہاں آج پی ڈی پی نے سابقہ حکومت میں شامل چار وزراء کو کابینہ سے باہر رکھا وہیں بی جے پی نے بھی اپنے دو وزراء کو اس نئی کابینہ میں شامل نہیں کیا۔
پی ڈی پی کی طرف سے الطاف احمد بخاری، جاوید مصطفی میر، محمد اشرف میر اور عبدالمجید پڈر جبکہ بی جے پی کی طرف سے سکھ نندن کمار اور پون گپتا کو اس نئی کابینہ سے باہر رکھا گیا۔ اُن کی جگہوں پر شام لال چودھری (بی جے پی)، اجے نندا (بی جے پی)، سید فاروق احمد اندرابی (پی ڈی پی) اور ظہور احمد میر (پی ڈی پی) کو نئی کابینہ میں شامل کیا گیا۔ محبوبہ مفتی جو فی الوقت پارلیمانی حلقہ انتخاب اننت ناگ سے رکن پارلیمنٹ ہیں، کو آنے والے چھ ماہ کے اندر اندر ایم ایل اے یا ایم ایل سی کی حیثیت سے انتخاب جیتنا ہوگا۔ وہ امکانی طور پر اپنے والد مرحوم مفتی سعید کے اسمبلی حلقہ اننت ناگ سے ضمنی چناؤ لڑیں گی۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات سال 2014 ء کے آواخر میں منعقد ہوئے تھے جن کے نتائج کے اعتبار سے پی ڈی پی 28 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی، بی جے پی 25 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی تھی جبکہ سابقہ مخلوط حکومت میں شامل نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو بالترتیب 15 اور 13 سیٹیں ملی تھیں۔ علیحدگی پسند سیاست سے مین اسٹریم میں قدم میں قدم رکھنے والے سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس وادی کشمیر میں ایک سیاسی طاقت بن کر ابھر گئی تھی جس نے دو سیٹوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے تھے ۔ محبوبہ مفتی نے 26 مارچ کو ریاستی گورنر این این ووہرا سے ملاقات کرکے ریاست میں نئی حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔
انہوں نے 22 مارچ کی صبح نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اُن کی سرکاری رہائش گاہ واقع 7 ریس کورس روڑ پر ملاقات کی تھی جس کے ساتھ ہی ریاست میں حکومت سازی کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ اگرچہ انہوں نے اس میٹنگ کی تفصیلات کو تاحال صیغہ راز ہی رکھا ہے ، تاہم بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو کے مطابق ملاقات کے دوران مسٹر مودی نے محبوبہ مفتی کو آشرواد دینے کے ساتھ ساتھ ہر ممکن تعاون، حمایت اور مدد کی یقین دہانی کرائی۔اس ملاقات کے دو روز بعد یعنی 24 مارچ کو پی ڈی پی نے محبوبہ مفتی کو لیجسلیچر پارٹی کا لیڈر اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ انہیں 2 اپریل کی شام گورنر مسٹر ووہرا نے باضابطہ طور پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد پر مبنی مخلوط حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی تھی۔ گورنر نے انہیں ایک مکتوب کے ذریعے 4 اپریل کی صبح 11 بجے حلف لینے کے لئے راج بھون مدعو کیا تھا۔ مرحوم مفتی سعید نے گذشتہ سال کے 13 نومبر کو اپنی بیٹی محبوبہ مفتی کو ریاست کی اگلی وزیر اعلیٰ بنائے جانے کی خواہش کا بلواسطہ طور پر اظہار کیا تھا۔ انہوں نے جموں میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت کے حصے کے طور پر محبوبہ مفتی ریاست کی نئی وزیر اعلیٰ ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ محبوبہ مفتی نے پارٹی صدر کی حیثیت سے اسمبلی انتخابات کے دوران بہت ہی اچھا کام کیا اور اُن کی کوششوں کی وجہ سے ہی پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس کے بعد پارٹی نے ریاست میں بی جے پی کے ساتھ ملکر حکومت تشکیل دی۔
مرحوم مفتی سعید کی جانب سے اپنی بیٹی کو ریاست کی اگلی وزیر اعلیٰ بنائے جانے کی خواہش کے اظہار پر بی جے پی کے صرف ایک لیڈر پروفیسر ہری اوم نے اعتراض ظاہر کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جموں واسیوں اور بی جے پی کے لئے محبوبہ مفتی کا وزیر اعلیٰ بننا ناقابل قبول ہے ۔ انہوں نے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کے نام 13 نومبر کو بھیجے گئے ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے اعلان سے جموں خطے کے لوگ اور بی جے پی کے کارکنان مایوس اور تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ جموں واسیوں نے ایک آواز میں کہا ہے کہ محبوبہ مفتی کا وزیر اعلیٰ بننا انہیں ناقابل قبول ہے ۔ تاہم مسٹر ہری اوم کو بعدازاں بی جے پی کی بنیادی رکنیت سے چھ ماہ کے لئے بے دخل کیا گیا تھا۔