نئی دہلی: واضح ثبوت نہ ہونے کے باوجود سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی حکومت نے صرف حالات کے ثبوتوں کی بنیاد پر 1962 میں یہ اعتراف کر لیا تھا کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی موت طیارہ حادثے میں ہو چکی ہے ۔ حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری کئے جانے والی نیتا جی سے وابستہ خفیہ فائلوں میں سے ایک میں پنڈت نہرو کا ایک خط بھی شامل ہے جو انہوں نے نیتا جی کے بڑے بھائی سریش بوس کو لکھا تھا۔ مسٹر سریش بوس حکومت سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ خبر کہاں تک سچ ہے کہ نیتا جی کی موت 18 اگست 1945 کو تائیپئی طیارہ حادثے میں ہوئی ہے ۔ یہ خط پنڈت نہرو کو تب لکھا گیا تھا جب نیتا جی کی موت کی حقیقت جاننے کے لئے شاہنواز کمیشن قائم کیا جا چکا تھا۔ مسٹر بوس کے خط کے جواب میں پنڈت نہرو نے لکھا تھاکہ “آپ نے مجھ سے نیتا جی کی موت کا ثبوت طلب کیا ہے ۔ میں ایسا کوئی واضح یا مستند ثبوت آپ کو نہیں دے سکتا۔ لیکن اس بارے میں جتنے بھی حالات کے شواہد شاہنواز کمیشن کو سونپے گئے ہیں ان کی بنیاد پر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ نیتا جی کی موت ہو چکی ہے “۔ پنڈت نہرو نے یہ بھی کہا تھا کہ نیتا جی کے بچے ہونے کے امکانات انتہائی لاغر اس لئے بھی ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو لوٹ کر اپنے ملک ضرور آتے جہاں ان کا پوری گرمجوشي اور مکمل احترام کے ساتھ خیر مقدم ہوتا۔
مودی سرکار کے ذریعہ عوام کے سامنے لائی جانے والی نیتا جی کی 50 فائلوں میں نیتا جی پر کتاب لکھنے والی مصنفہ اوشا رنجن کا ایک حلف نامہ بھی ہے جو انہوں نے مکھرجی انکوائری کمیشن کو سونپا تھا۔ اس حلف نامے پر کمیشن نے اس وقت کی مرکزی حکومت سے جواب بھی طلب کیا تھا۔ حلف نامہ میں محترمہ رنجن نے نیتا جی کی موت طیارہ حادثے میں ہونے کی بات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہنشاہ نے اتحادیوں کے فوجی جنرل میک آرتھر کے سامنے 14 اگست 1945 کو ہی ہتھیار ڈال دیا تھا ۔ایسے میں کسی جاپانی بمبار طیارہ کے سنگاپور سے پرواز کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے ۔ مصنفہ کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد جاپان کے کسی فوجی جنرل کے پاس یہ اختیار ہی نہیں بچا تھا کہ وہ کسی جنگی طیارے کو اڑانے کا حکم دے سکے ۔ ایسے میں اس بات میں کوئی دم نہیں ہے کہ نیتا جی کی موت طیارہ حادثے میں ہوئی تھی۔مصنفہ کا دعوی ہے کہ نیتا جی کی موت نہیں ہوئی تھی بلکہ انہیں آزاد ہند فوج کے سیرمبن میں واقع تربیتی کیمپ سے گرفتارکرکے پہلے سنگاپور لایا گیا تھا، جہاں سے ان کو بذریعہ طیارہ دہلی لاکر لال قلعہ میں قید کر دیا گیا تھا اور وہیں ان کو قتل کر دیا گیا تھا۔