کیلیفورنیا: شمالی امریکہ کی مشہور مونارک تتلیاں یا ایسٹرن مونارک بٹرفلائی اگلے 20 برس میں صفحہ ہستی سے غائب ہوسکتی ہیں۔
اگرچہ ان کی آبادی میں کچھ اضافہ نوٹ کیا گیا ہے لیکن وہ اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا جو گزشتہ 20 برس سے جاری ہے۔ اسکرپس انسٹی ٹیوشن آف اوشیانوگراف کی تحقیق کے مطابق 1996 سے 2015 تک مشرقی مونارک تتلیوں کی آبادی تیزی سے کم ہوتے ہوئے اب 84 فیصد تک کم ہوچکی ہے۔
مونارک تتلیوں کو گننا محال ہوتا ہے اور ان کے جھنڈ کی لمبائی چوڑائی کو دیکھتے ہوئے ہی ان کی تعداد کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ سردیوں میں میکسکو آتی ہیں۔ صرف 1996 میں مونارک تتلیوں کے جھنڈ 45 ایکڑ پر دیکھے گئے تھے لیکن بہت کوشش کے باوجود بھی انہیں 2015 اور 2016 میں صرف 10 ایکڑ رقبے پر دیکھا گیا ہے۔
ورلڈ والڈ لائف فنڈ ( ڈبلیو ڈبلیو ایف ) کے مطابق جنگلات میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں اور تتلیوں کی نسل خیزی کے میدان میں کمی سے یہ حساس تتلیاں بہت تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ جس طرح ریشم کا کیڑا شہتوت کے پتےاور پانڈا بانس کو کھاتا ہے اسی طرح مونارک تتلی کا کیڑا صرف ایک خاص دودھیا پودے (ملک ویڈ) پر گزارا کرتا ہے۔ تتلیاں بھی اسی درخت پر انڈے دیتی ہیں۔ صرف امریکا میں ہی 1990 سے اب تک ملک ویڈ کے ایک ارب پودے ختم ہوچکے ہیں۔ اس طرح تتلیوں کا گھراورخوراک کا ذخیرہ ختم ہورہا ہے۔ اسی لیے امریکا میں اس پودے کو اگانے کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مغربی مونارک تتلیاں جو روکی ماؤنٹین سے کیلیفورنیا نقل مکانی کرتی ہیں وہ اس مطالعے میں شامل نہیں اور ان کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔