لکھنؤ: قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے ) کے ڈی ایس پی تنزیل احمد کے ہائی پروفائل قتل کے سات دن گزر جانے کے بعد بھی قاتل اب تک گرفت سے باہر ہیں۔قتل کے اس معاملے کی جانچ این آئی اے کے ساتھ ہی اتر پردیش پولیس کی اسپیشل ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف)، انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) اور مقامی پولیس کر رہی ہے ۔ اس کے باوجود قاتل پولیس کی گرفت سے باہر ہیں، قتل کے اہم ملزم منیر کا سراغ دینے والے کو پولیس نے 50 ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا۔ اس معاملے کی کارروائی کی پل پل کی معلومات مرکزی حکومت بھی حاصل کر رہی ہے ۔معاملہ اتنا بڑا ہے کہ پولیس ڈائریکٹر جنرل جاوید احمد، ایڈیشنل پولیس ڈائریکٹر جنرل (قانون) نے موقع پر جاکر حالات کاجائزہ لیا۔ اے ٹی ایس کے آئی جی اور ایس ٹی ایف کے سینئر افسران بجنور میں ہی خیمہ زن ہیں۔
دریں اثنا ،بجنور کے سینئر پولس سپرنٹنڈنٹ سبھاش سنگھ بگھیل نے بتایا کہ چھ لوگوں سے آج پوچھ گچھ کی جارہی ہے لیکن ان لوگوں کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تفتیش صحیح سمت میں چل رہی ہے قاتل جلد ہی پولیس کے گرفت میں ہوں گے ۔قاتلوں کی گرفتاری میں تاخیر سے ناراض تنزیل کے رشتہ داروں نے معاملہ کی تفتیش مرکزی تفتیشی بیورو سے کرانے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے ۔پولیس ڈائیریکٹر جنرل جاوید احمد نے کل مقتول ڈی ایس پی کے رشتہ داروں سے ملاقات کرکے قاتلوں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔تنزیل احمد کے بھائی رابد اور حسیب خاں سے ملاقات کے بعد پولیس ڈائیریکٹر جنرل نے اب تک کی ہوئی جانچ کاسلسلے وار جائزہ لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ قاتل چاہے کتنے بھی طاقتور ہوں،بخشے نہیں جائیں گے ۔قتل کے اس معاملہ کا مکمل خلاصہ ہوگا۔صحیح قاتل ہی پکڑے جائیں گے ،ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ وقت لگ جائے ۔جلد بازی میں تفتیش ختم نہیں کی جائے گی۔
گزشتہ دو اپریل کو اپنی بھانجی کی شادی سے واپس لوٹ رہے ڈی ایس پی تنزیل احمد کوشدید فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔بجنور کے سیوہارا علاقے میں حملہ آوروں کی گولی سے مسٹر تنزیل احمد کی اہلیہ فرزانہ زخمی ہوگئی تھیں۔کار میں سوار ان کے دونوں بچے بچ گئے تھے ۔پٹھان کوٹ ائیر بیس پر ہوئے حملے کی جانچ میں شامل ڈی ایس پی تنزیل احمد کے قتل کے معاملے کی تفتیش کے شروعاتی دور میں پولیس نے اس واقعہ کے پیچھے دہشت گرد تنظیم کے شامل ہونے کے اندیشے سے انکار نہیں کیا ہے لیکن جانچ جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے پولیس افسروں نے واضح کر دیا ہے کہ اس میں دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ نہیں ہے ۔اس معاملے میں کل بجنور کے ایک پولیس سب انسپیکٹر اور دو سپاہیوں کو لاپرواہی برتنے کے الزام میں معطل کردیا گیا تھا۔