دبئی:شام میں حلب کے نواحی علاقے کے ایک اسپتال پر سرکاری فوج کے طیاروں کے حملے میں کوئی 20 لوگ مارے گئے ہیں جن میں طبی عملہ کے افراد کے علاوہ تین بچے بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ راحت اور بچاو عملہ اسپتال کی تباہ شدہ عمارت کے ملبہ سے لاشوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد بڑھنے کا اندیشہ ہے ۔اس درمیان اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ شام میں اسی طرح لڑائی جاری رہی تو جنگ زدہ ملک میں فروری سے نافذجنگ بندی کا معاہدہ ٹوٹ سکتا ہے ۔ٹیلی ویژن تصاویر میں اسپتال پر حملے میں ہلاک لوگوں کی لاشیں دکھائی گئی ہیں ان میں سے کئی لاشیں جلی ہوئی ہیں۔ حلب شہر پر سرکاری طیاروں کے جمعہ سے کئے گئے حملوں میں اب تک 100 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔حلب کی لڑائی میں منگل کو 35 افراد مارے گئے تھے جن میں 8 بچے بھی شامل تھے ۔ شام میں تقریباً دو ماہ سے جاری جنگ بندی کو جس کی پابندی کم اور خلاف ورزی زیادہ ہو رہی ہے ، متحارب فریقین ٹوٹنے کے قریب لے آئے ہیں۔سیرین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بتایا ہے کہ حلب کے نواحی علاقے السکرائی میں واقع القدس اسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔ اِس اسپتال کو بین الاقوامی امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی امداد حاصل تھی۔ السکرائی باغیوں کے قبضے میں ہے ۔ آبزرویٹری نے مقامی لوگوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ فضائی حملے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب میں کیے گئے ۔ القدس اسپتال کو اب تک چودہ مرتبہ امکاناً حکومتی جنگی طیاروں نے نشانہ بنایا ہے اور اب یہ کسی قابل نہیں رہا ہے ۔آبزرویٹری نے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ چھ دنوں میں شامی جنگی طیاروں کی بمباری میں 84 شہری مارے گئے ہیں اور باغیوں کی شیلنگ سے 49عام لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے ۔ 22 اپریل سے مجموعی عوامی ہلاکتوں کی تعداد دو سو بتائی جاتی ہے ۔ حلب کا شہر اِس وقت منقسم ہو چکا ہے ۔ اقتصادی سرگرمیوں کے بڑے مرکز کے ایک حصے پرصدر بشار الاسد کی فوج قابض ہے تو دوسری حصے میں باغی مورچہ زن ہیں۔ اسد حکومت کی فوج شہر پر مکمل قبضہ کرنے کی کوشش شروع کیے ہوئے ہے ۔دوسری جانب شام کے لیے مقرر اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر اسٹیفان ڈے مستورا نے امریکہ اور روس سے اپیل کی ہے کہ ناکام ہوتے ہوئے شامی امن مذاکرات کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ حالیہ جھڑپوں کے مذاکراتی عمل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سفیر نے یہ بھی کہا کہ دو ماہ سے جاری جنگ بندی اب ایک دھاگے سے بندھی رہ گئی ہے اور اِس صورت حال کو سنبھالنے کے لیے روس اور امریکا کی مداخلت ضروری ہے ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں قیام امن کا جنیوا مرحلہ اِس وقت مکمل طور پر بند گلی میں داخل ہو کر معطل ہو چکا ہے ۔ اس بات کا اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ شام ایک مرتبہ پھر پوری جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے ۔ اسد حکومت کی فوج نئے جدید روسی اسلحے کے سہارے مزید علاقوں کی بازیابی کی کوشش میں ہے اور باغی بھی بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔