نئی دہلی:حکومت نے ناموافق عالمی رجحانات کے باوجود معیشت کی تیزی برقرار رکھنے کیلئے زراعت، بینکنگ اور صنعتوں کو ہرممکن مدد دینے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اقتصادی اصلاحات کا عمل جاری رکھا جائے گا اور کالے دھن پر قدغن لگانے کیلئے ہرممکن اقدامات کئے جائیں گے ۔وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے لوک سبھا میں مالی بل 2016 پر ہوئی بحث کا جواب دینے کے دوران بینکوں کو معیشت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان کے غیر فعال اثاثہ (این پی اے ) کو کم کرنے کیلئے موثر قانون بنانے کے ساتھ ہی ان میں اور سرمایہ ڈالنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے تاکہ ترقیاتی کاموں کیلئے قرض کا نظام چاق چوبند بنا رہے ۔ سونے کے زیورات پر ایک فی صدر اکسائز ڈیوٹی عائد کئے جانے کو درست قدم ٹھہراتے ہوئے مسٹر جیٹلی نے کہاکہ اسے واپس نہیں لیاجائے گا کیوں کہ یہ بڑے صرافوں کیلئے ہے ۔ چھوٹے کاروباری اس سے متاثر نہیں ہوں گے ۔
وزیر خزانہ کے جواب کے بعد ایوان نے 17-2016 کے مالی بل کے عام بجٹ کو منظور کرلیا۔ایوان نے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی طرف سے پیش کی گئیں 55 ترامیم اور تین نئے کلازکے ساتھ بل کو صوتی ووٹ سے منظوری دی۔مسٹر جیٹلی نے کہاکہ معیشت کو مضبوطی دینے کے عالمی اسباب فی الحال ندارد ہیں۔ عالمی معیشت کا 40فیصد بوجھ اکیلے ایشیائی بینک اٹھا رہے ہیں۔ مندی کس سمت جا رہی ہے ، اندازہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں 7.6 فیصد کا شرح نمو کا متوقع ہدف حاصل کرنا ممکن نہ ہوگا، یہ 7.2 فیصد کے آس پا س رہے گا۔عالمی اسباب کے فقدان میں گھریلو سطح پرکئے گئے سخت اقتصادی اصلاحات ہی کام آئیں گے ۔معیشت کی کمزوری کے بینکوں پر پڑے رہے منفی اثر کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر جیٹلی نے کہاکہ بینکوں کے این پی اے بڑھنے کے پیچھے اسپات صنعت، شاہراہ کی تعمیر کے سیکٹر اور بجلی سیکٹروں میں آئی سستی بڑی وجہ رہی ہے ۔ اس لئے گزشتہ دو برسوں کے دوران ان شعبوں کو اقتصادی مدد اور رعایتیں دے کر مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کچھ غلط لوگوں کو غلط طریقے سے دیئے گئے قرض بھی این پی اے کا سبب بنے ہیں۔ اس کیلئے قرض دینے کے ضوابط سخت بنانے کے ساتھ ہی سرکاری بینکوں کے مینجمنٹ کو اور زیادہ پیشہ ور بنایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ این پی اے چھپانے سے اس کا حل نہیں ہوگا اسے بینکوں کو اپنی بیلنس شیٹ میں دکھانا ہوگا تبھی حکومت مدد کیلئے آگے آ پائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ ٹیکس کے شعبے میں بھی کئی اصلاحات کا آغاز ہوا ہے ۔ عام لوگوں کو راحت دینے کے ساتھ ہی چھوٹی اور بڑی صنعتوں کو کاروباری سہولت دینے کیلئے ٹیکس اصلاحات کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا گیا ہے ۔ بجٹ میں چھوٹے ٹیکس دہندگان کو نئے مکان خریدنے ، کرائے پر اور این پی ایس میں سرمایہ کاری پر چھوٹ دینے کا بندوبست کیا گیا ہے تاکہ ان کے ہاتھوں میں خرچ کیلئے زیادہ پیسہ بچا رہے ۔ ٹیکس دہندگان اور محکمہ ٹیکس کے مابین وعدوں کے نمٹارے کو آسان بنایا جا رہا ہے ۔ ٹیکس اصلاحات کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کی حکومت آنے کے بعد ریونیو میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ 15۔2014 کے دوران ریونیو 9.5 فیصد تھا جو گزشتہ سال بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گیا۔ ملک میں پہلی بار حقیقی خرچ بجٹ تخمینہ سے زیادہ ہوا ہے ۔پہلے بجٹ تخمینہ کے بعد اخراجات میں کٹوتی کی جاتی تھی اور وہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے لیکن اس بار یہ روایت ٹوٹ گئی ہے ۔کالے دھن کو باہر نکالنے کی سخت تدابیر کا حوالے دیتے ہوئے مسٹر جیٹلی نے کہاکہ غیرممالک میں جمع کالا دھن واپس لانے کے تحت سوئٹزرلینڈ حکومت کے ساتھ تعاون کیاگیا ہے ۔ اس کے علاوہ پناما لیک معاملے میں جن کے نام آئے ہیں انہیں نوٹس جاری کیا گیاہے ۔ گھریلو سطح پر انکم ٹیکس کی چوری روکنے کیلئے خود کا روزگار کرنے والوں، ڈاکٹروں اور وکیلوں کی کُل آمدنی کے 50 فیصد پرہی انکم ٹیکس لگانے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔بڑی آمدنی والوں کو اپنی مرضی سے آمدنی کا انکشاف کرنے پرقانونی کارروائی کے بجائے کچھ جرمانے سود کے ساتھ انکم ٹیکس جمع کرنے کی رعایت دی گئی ہے ۔ ٹیکس تنازعات کے معاملے کم کرنے کی تدابیر کی جا رہی ہیں۔ تحویل اراضی پر دیئے جانے والے معاوضے کی رقم پر ٹیکس چھوٹ کے بندوبست کو ختم کرنے پر بھی غور کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ معیشت کے انتظام کو بہتر بنانے کیلئے ریزرو بینک ایکٹ میں ترمیم کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اس کے تحت ایک مالیاتی پالیسی کا جائزہ کیلئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی جائے گی۔ جو نشانہ بند افراط زر کا ہدف مقرر کرکے مالی پالیسی طے کرے گی۔کھیتی باڑی سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس لگائے جانے کے چھ اراکین کے مشورے پر وزیر خزانہ نے کہاکہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ یہ اس کے نہیں بلکہ ریاستی حکومتوں کے دائرہ اختیار کا معاملہ ہے ۔ کچھ اراکین نے یہ سوال اٹھائے تھے کہ مونسانٹو اور کاویری جیسی کمپنیاں کروڑوں کی کمائی کر رہی ہیں اور اسے زرعی آمدنی بتا کر کروڑوں روپئے کا انکم ٹیکس بچا رہی ہیں۔ ان پر انکم ٹیکس لگایا جانا چاہئے ۔ مسٹر جیٹلی نے اس سلسلے میں کہاکہ زراعت کے شعبہ میں ایسے لوگوں کی تعداد نہ کے برابر ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ملک کا زرعی سیکٹر ابھی بھی بہت دباؤ میں ہے ۔ ایسی صورت میں زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے سے متعلق حکومت سوچ بھی نہیں سکتی۔ تاہم انہوں نے کہاکہ زرعی آمدنی کو دوسرے کاروبار میں لگا کر منافع کمانے والوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے پر غور کیا جائے گا۔
سونے اور بیش قیمتی پتھروں سے بنے زیورات پر ایک فیصد اکسائز ڈیوٹی لگانے کے سلسلے میں مسٹر جیٹلی نے کہاکہ یہ پوری طرح قابل جواز ہے ۔ اسے واپس نہیں لیا جائے گا۔مالی بل پر بحث کا جواب دیتے وقت مسٹر جیٹلی کی طرف سے آندھرا پردیش کے پولاورم پروجیکٹ پر وہاں کے ممبران پارلیمنٹ کو یقین دہانی کرائے جانے سے ناراض بیجو جنتا دل کے ارکان نے بل منظور کئے جانے کے دوران ایوان سے واک آؤٹ کیا۔مسٹر جیٹلی نے کہا کہ مرکز آندھرا پردیش کی تنظیم نو قانون کے تحت پولاورم پروجیکٹ کے نفاذ کے لئے پر عزم ہے اور اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس پروجیکٹ کے تعلق سے اڑیسہ کی تشویش کا بھی مناسب حل نکالا جائے گا۔ لیکن بی جے ڈی کے ارکان اس سے مطمئن نہیں ہوئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے اور ایسے میں حکومت آندھرا پردیش کو کس طرح یقین دہانی کراسکتی ہے ۔