کلکتہ: ملک کی معیاری یونیو رسٹیوں میں سے ایک جادو پور یونیورسٹی اس وقت زعفرانی نظریات اور بائیں بازوں کے نظریات رکھنے والوں کے درمیان میدان جنگ بن گئی ہے ۔ ایک طرف جہاں منو واد سے آزادی،برہم واد سے آزادی،آر ایس ایس سے آزادی کے نعرہ لگ رہے ہیں، وہیں اب زعفرانی نظریات والے ”ملک دشمن کو جادو پور یونیورسٹی سے دھو ڈالیں گے ، کشمیر کو مانگو تو چیر ڈالیں گے ، بھارت ماتا کی جے جیسے نعرے لگارہے ہیں ۔متنازع فلم ”بدھا ان ٹریفک جام” کی یونیورسٹی کے کیمپس میں بغیر اجازت اسکریننگ کے خلاف طلباء کے احتجاج اور اس کے ایک دن بعد ہزارو ں طلباء کے ذریعہ یونیورسٹی کے معاملات میں دخل اندازی، ایک خاص نظریات کو تھوپنے کی کوشش کے خلاف جلوس نکالا گیا اور کل شام آر ایس ایس کی طلباء تنظیم نے اے بی وی پی کے حامیوں نے جلوس نکال کر اپنے ارادے ظاہر کردیے ہیں وہ اس معاملے میں آسانی سے خاموش نہیں ہونے والے اور اس کو آگے تک لے جائیں گے ۔جا دوپور یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال ، فلم اسکریننگ کے نام پر کیمپس میں ہنگامہ آرائی کی کوشش، جادو پور یونیور سٹی کو ملک مخالف عناصر کا اڈہ قرار دینا اور گورنر جیسے باوقار عہدہ فائر شخصیت جو بذات خود یونیورسٹی کے چانسلر ہیں کی کی جانب سے یونیورسٹی کے خلاف تبصرے کے بعد ریاست کے دانشوروں اور تعلیمی شعبے سے وابستہ شخصیتوں نے ان صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
جادو پور یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر سوچیتاندا چٹو پادھیائے نے کہا کہ حیدرآباد یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے بعد اب جادو پور یونیورسٹی ہندتو قوتوں کے نشانہ پر ہیں اور ان کا مقصد جا دو پور یونیورسٹی کو بدنام کرنا ہے ۔چٹو پادھیائے نے کہا کہ جا دو پور یونیورسٹی کے کیمپس میں بغیر اجازت فلم کی اسکریننگ کا مقصد اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اے بی وی پی کے حامیوں کی ہنگامہ آرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں ۔خیال رہے کہ فلم ڈائریکٹر اگنی ہوتری فلم ”بدھا ان ٹریفک جام” کی جادو پور یونیورسٹی کے الومنی ایسوسی ایشن کے زیر ملکت ہال میں ہونا تھا مگر بعد میں ہال کی اجازت رد کردی گئی ۔اس کے بعد فلم کی نمائش یونیورسٹی کیمپس کے پلے گراؤنڈ میں کرنے کا اعلان کیا گیا ۔اس کے بعد ہی ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی ہے ۔طلباء نے انہیں کالے جھنڈے دکھلائے ، اور نعرے بازی کی مگر ہوتری کے دعویٰ کے برعکس وہاں ان پر حملہ نہیں ہوا ۔ اور وہ کیمپس میں تقریر بھی کی ۔ہال رد ہونے کیلئے انہوں نے وائس چانسلر کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر وائس چانسلر سورنجن داس نے کہا کہ اس میں یونیورسٹی کا کوئی معاملہ نہیں ہے یہ ہال الومنی ایسوسی ایشن کا ہے ۔
سورنجن داس نے کہا کہ ہوتری کا تعلق یونیورسٹی سے نہیں ہے اس لیے انہیں اجازت لینا ضروری تھا ۔ہوتری بی جے پی اور اے بی وی پی کے کارکنان کی مدد سے فلم اسکریننگ کی ۔یونیورسٹی میں اے بی وی پی کی یونٹ نہیں ہے ۔یہ سب لوگ کیمپس کے باہر کے تھے ۔اسی درمیان جا دو پوریونیورسٹی کے طلباء کے ایک گروپ نے ” 2013میں ہوئے مظفر نگر فسادات پر بنی فلم ”مظفر نگر باقی ہے ” کی اسکریننگ کا فیصلہ کرلیا ۔جادو پور یونیورسٹی کے طلباء یہ کہتے ہیں کہ ہوتری کا یہ دعویٰ کہ یونیورسٹی میں اظہار خیال کی آزادی پر حملہ ہوا ہے یہ غلط ہے ، سچائی یہ ہے کہ یونیورسٹی ایک خود مختار ادارہ ہے ، وہاں کوئی بھی پروگرام سے قبل اجازت لینا ضروری ہے اور انہوں نے اس قانون کی پاسداری نہیں کی ۔آرٹ فیکلٹی طلباء یونین کے جنرل سیکریٹری تیتر چکرورتی نے کہا کہ ہوتری کے کیمپس میں جانے کے بعد ان کے حامی جن میں بی جے پی کے ورکرس زیادہ نے ہنگامہ آرائی شروع کردی اور حالات بد ترین ہوگئے ۔فرقہ پرستی پر مبنی نعرے لگائے گئے ۔جے شری رام کے نعرے لگے ۔بھیڑ میں موجود لوگوں نے وہاں موجود طالبات کے بدسلوکی بھی کی۔انہوں نے کہا کہ طالبات نے بتایا کہ ان کے سینے پر حملہ کیا گیا ۔یونیورسٹی کی شکایت پر بی جے پی کے چار حامی جن میں تین کا تعلق اے بی وی پی سے تھا کو جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا بھی کیا ۔
بی جے پی کی بنگال میں خاتون لیڈر روپا گنگولی بھی وہاں پہنچ گئیں مگر انہیں کیمپس میں داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔مگر اس کے بعد بی جے پی لیڈروں کی جانب سے یونیورسٹی کے خلاف مورچہ کھول دیا گیا ۔بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش نے جادو پور یونیورسٹی کو ملک دشمن عناصر کا اڈہ قرار دیا گیا ۔ دوسری جانب جادو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس بات مصر ہیں کہ کیمپس کے باہری لوگوں نے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے ۔کل شام بی جے پی حامیوں نے جلوس نکالا اور جا دو پوریونیورسٹی کے خلاف نعرے بازی کی اور ان پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا ۔سی پی ایم لیڈروں کاالزام ہے کہ اس پورے معاملے میں ترنمول کانگریس کے لیڈروں کی خاموشی اس بات کا مظہر ہے کہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کا یکساں موقف ہے ۔خیال رہے کہ فروری میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تنازع کے بعد جا دوپور یونیورسٹی میں کنہیا کمار کی گرفتاری کے خلاف جلوس نکالا گیا جس میں کچھ مظاہرین کو ملک مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے دکھا گیا تھا ۔اس وقت بھی جا دو پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر سورنجن داس نے کہا تھا کہ اس طرح کی نعرے بازی ان کے طلباء نے نہیں کیا ہے باہری لوگ اس میں شامل ہیں ۔انہوں نے اس کے خلاف پولس کو طلب کرنے سے بھی منع کردیا تھا کہ یونیورسٹی خودمختار ادارہ ہے اور وہ اپنے طور پر جانچ کرے گی ۔
بی جے پی کی بنگال میں خاتون لیڈر روپا گنگولی بھی وہاں پہنچ گئیں مگر انہیں کیمپس میں داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔مگر اس کے بعد بی جے پی لیڈروں کی جانب سے یونیورسٹی کے خلاف مورچہ کھول دیا گیا ۔
بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش نے جادو پور یونیورسٹی کو ملک دشمن عناصر کا اڈہ قرار دیا گیا ۔ دوسری جانب جادو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس بات مصر ہیں کہ کیمپس کے باہری لوگوں نے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے ۔کل شام بی جے پی حامیوں نے جلوس نکالا اور جا دو پوریونیورسٹی کے خلاف نعرے بازی کی اور ان پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا ۔سی پی ایم لیڈروں کاالزام ہے کہ اس پورے معاملے میں ترنمول کانگریس کے لیڈروں کی خاموشی اس بات کا مظہر ہے کہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کا یکساں موقف ہے ۔خیال رہے کہ فروری میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تنازع کے بعد جا دوپور یونیورسٹی میں کنہیا کمار کی گرفتاری کے خلاف جلوس نکالا گیا جس میں کچھ مظاہرین کو ملک مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے دکھا گیا تھا ۔اس وقت بھی جا دو پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر سورنجن داس نے کہا تھا کہ اس طرح کی نعرے بازی ان کے طلباء نے نہیں کیا ہے باہری لوگ اس میں شامل ہیں ۔انہوں نے اس کے خلاف پولس کو طلب کرنے سے بھی منع کردیا تھا کہ یونیورسٹی خودمختار ادارہ ہے اور وہ اپنے طور پر جانچ کرے گی ۔