ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جماعت اسلامی کے رہنما مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کو سزائے موت دے دی گئی۔وزیر قانون و انصاف انیس الحق نے میڈیا کو بتایا کہ 73 سالہ رہنما نے صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد انہیں گذشتہ رات گیار ہ بجکر 50منٹ سے 12 بجے کے درمیان پھانسی دی گئی۔روزنامہ ڈیلی اسٹار کے مطابق جب سرکاری حکام نے مولانا نظامی سے کہا کہ وہ چاہیں تو صدر سے رحم کی درخواست کرسکتے ہیں۔ اس پر بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے امیر نے کہا کہ ‘میرے لئے میرے رب کا رحم بہت کافی ہے ، اس کے علاوہ میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی سٹار کے مطابق پھانسی سے قبل ان کے خاندان نے ان سے ملاقات کی تھی اور وہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کیے بغیر واپس چلے گئے تھے ۔ ان کے اہل خانہ نے بھی رحم کی اپیل نہیں کرنے کا اعلان کیا۔
مطیع الرحمان نظامی کو ملک کے شمالی حصے میں ان کے آبائی گاؤں میں دفن کیا جائے گا۔ڈیلی اسٹار کے مطابق مولانامطیع الرحمان نظامی نے اپنے رفقاء اور کارکنوں سے درخواست کی کہ’ ان کی زندگی کے بجائے استقامت کی دعا کی جائے ۔ ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے ۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری موت کے وقت میرا رب مجھ سے راضی ہو۔مولانا نظامی کو پھانسی دئے جانے سے قبل ملک بھر میں اور بالخصوص ڈھاکہ میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے ۔ تاہم ان کی پھانسی کے بعد ملک میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر تشدد کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کو 1971 کی جنگ کے موقع پر قتل، ریپ اور ملک کے دانشوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ان کا مقدمہ متنازع ٹرائل کورٹ میں چلایا گیا تھا، مذکورہ ٹرائل کورٹ بنگلہ دیش کی موجود حکمران جماعت حسینہ واجد کی انتظامیہ نے تشکیل دی تھی۔
ان ٹرائل کورٹس کی انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیموں نے نکتہ چینی کی ہے جب کہ جماعت اسلامی اور اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی (بی این پی) کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ان کے قیادت کو ختم کرنے کے مترادف ہے ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت جنگی جرائم کے ٹریبونل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ بھی کہہ چکی ہے کہ اس عدالت کا طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے ۔واضح رہے کہ دسمبر 2013 سے جاری متنازع ٹرائل کے بعد سے اب تک جماعت اسلامی کے تین اور بی این پی کے ایک رہنما کو پھانسی دی جاچکی ہے ۔جنوری 2010 میں پانچ سابق فوجی افسران کو ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان اور حسینہ کے والد کے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔
مولانا مطیع الرحمان نظامی سنہ 1971 میں جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے اور ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ‘البدر’ نامی ملیشیا کے کمانڈر کے حیثیت میں آزادی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں ہلاک کرنے میں پاکستانی فوج کی اعانت کی تھی۔سنہ 2010 میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے مطیع الرحمان نظامی کے علاوہ جماعت اسلامی کے دیگر اہم رہنماؤں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی تھی جن میں سے عبدالقادر ملّا، قمر الزماں سمیت کئی افراد کو تختہ دار پر لٹکایا بھی جا چکا ہے ۔گذشتہ ہفتے بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو سنائی گئی سزائے موت برقرار رکھنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل مسترد کر دی تھی۔حسینہ واجد کی حکومت کا کہنا ہے کہ 1971 میں تحریک آزادی کی جنگ میں پاکستانی فورسز اور جماعت رہنماؤں کی زیر قیادت ان کے حامیوں کے ہاتھوں 30 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد تین سے پانچ لاکھ تھی۔
برسرِ اقتدار جماعت ‘عوامی لیگ’ کا کہنا ہے ملک کے ماضی کو دفن کرنے کے لیے جنگی جرائم کی تفتیش ضروری ہے ۔واضح رہے کہ مطیع الرحمان نظامی کو ایسے وقت میں پھانسی دی گئی ہے جب ملک میں لبرل، سیکولر، غیرملکیوں اور مذہبی اقلیتوں کے قتل کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں جبکہ حکومت اس کا الزام اسلامی شدت پسندوں پر عائد کرتی ہے ۔دریں اثنا ڈان نیوز کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے مولانا مطیع الرحمان کی پھانسی کی مذمت کی ہے ۔اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مطیع الرحمان کو پھانسی بے گناہ انسانیت کا خون ہے ،انہوں نے مزید کہاکہ مطیع الرحمان کو پاکستان کی حمایت کی سزا دی گئی۔