موسیقی فلم کی کہانی سے میل نہ کھانے کی وجہ سے بے اثر رہی
تین برس قبل مکمل ہونے والی پاکستانی فلم ہوٹل بالآخر پاکستان میں نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔ اس فلم میں اداکارہ میرا ایک طویل عرصے کے بعد سینیما کے پردے پر نظر آئیں۔
دورانِ حمل بچوں کو قتل کرنے کے خلاف بنائی گئی پاکستانی فلم ’ہوٹَل‘ کے ہدایتکار خالد خان کا دعوٰی ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی لالی ووڈ سائیکو تھرلر فلم ہے۔
تاہم کمزور تکنیک، بےجان مکالموں، اور زبردستی ڈالے گئے گانوں نے اس فلم کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔
یہ فلم مکمل طور پر بھارت کے شہر نئی دہلی کے ایک ہندو جوڑے کی کہانی ہے جس کے تمام کردار بھارتی ہندو ہیں، اور یہی اس فلم کی ایک بڑی خامی بھی ہے کیونکہ تمام اداکار پاکستانی ہی ہیں اور انھوں نے ہندی الفاظ بولنے کی ابتدا میں ناکام کوشش کے بعد مکمل اردو ہی بولنی شروع کردی۔
میرا جی مرکزی کردار ہیں مگر میراجی مرکزی کرداروں میں سے ایک تھیں جنہوں نے 1990 کی دہائی جیسی ہی اداکاری کی
اس فلم کو سائیکو تھرلر کے ساتھ ڈراؤنی بنانے کی بھی کوشش کی گئی جس میں فلم کے کرداروں کی ہوٹل میں ان بچوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیے گئے تھے۔
فلم کا نام اس کے پوسٹر پر انگریزی میں غلط کیوں لکھا ہے اس کا جواب تو فلم میں مِل گیا مگر شروع سےآخر تک ایسےکئی ان گنت سوالات بنا جواب چھوڑدیےگئے جودیکھنے والے کے ذہن میں شدید الجھن پیدا کرتے ہیں۔
فلم میں دو گانے اور ایک بیلی ڈانس بھی شامل کیا گیا ہے جو فِلم مکمل ہونے کے بعد شامل کیے گئے تھے کیونکہ ان کا فلم سے کسی بھی قسم کا کوئی ربط نہیں تھا۔
موسیقی فلم کی کہانی سے میل نہ کھانے کی وجہ سے بے اثر رہی۔
دیگر اداکاروں میں زیادہ تر نو آموز اداکار ہی تھے
فلم کے ہدایتکار خالد خان کے مطابق جب یہ فلم دہلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی تھی تب اس میں کوئی گانا نہیں تھا۔
اگرچہ 2014 میں دہلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اس فلم کو سرحد پار فلموں کی کیٹیگری میں میں بہترین اداکارہ اور بہترین فلم کےایوارڈز دیےگئےتھےمگراس کے باوجود اس فلم کو پاکستانی سینیما میں عرصہ دراز تک جگہ نہیں مِل سکی جس کی ممکنہ وجہ اس فلم کی کہانی کا موضوع سے باربار ہٹ جاناہے۔
بھارت میں دورانِ حمل ہی بچیوں کو ختم کرنے خبریں اکثر میڈیا میں چھپتی رہتی ہیں اور وہاں ممکنہ طور پر اس کہانی کو فلمانے کی وجہ رہی ہو مگر روح بدروح کا چکر خوفناک سے زیادہ الجھن کا باعث رہا جبکہ ایک موقع پر چاند کی چرخہ کاتنے والی بڑھیا کا کہانی میں آنا تمسخر کا باعث بنا۔
یہ فلم انتہائی اُلجھی ہوئی ہے جس کی کہانی کئی سوالات ادھورے چھوڑ گئی
اس فلم کو دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ سیٹ ڈیزائن اور اداکاروں کے ملبوسات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
فلم سے پہلے بارہا کہاگیا کہ میرا جی مرکزی کردار ہیں مگر میراجی مرکزی کرداروں میں سے ایک تھیں جنہوں نے 1990 کی دہائی جیسی ہی اداکاری کی جس میں جدید سینیما کے رموز کا شائبہ تک نہ تھا۔اسی لیے سینیما ہال سے نکلتے ہوئے خیال آیا کے شاید یہ میراجی کے کیریئرکی آخری فلم ہی ہو۔
دیگر اداکاروں میں زیادہ تر نو آموز اداکار ہی تھے جنہوں نے کردار کے حساب سے مناسب کام ہی کر لیا۔
مجموعی طور پر یہ فلم انتہائی اُلجھی ہوئی ہے جس کی کہانی کئی سوالات ادھورے چھوڑ گئی۔