لکھنؤ:کے جی ایم یو کے جےآر-۱کے ذریعہ تین دن تک پی جی ایم ای کی کونسلنگ میں ہنگامہ کر کے کونسلنگ کو متاثر کیا گیا۔ پرنسپل سکریٹری طبی تعلیم کی مداخلت کے بعد دوشنبہ کو کونسلنگ کی جگہ تبدیل کرتے ہوئے پولیس فورس کی موجودگی میں نیشنل ڈگری کالج میں کونسلنگ شروع کرا دی۔ انتظامیہ کے اس قدم سے مشتعل ہوئے طلبا و طالبات نے او پی ڈی بند کر کے ہنگامہ آرائی کی۔ نیشنل کالج میں کونسلنگ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی طلباء وہاں پہنچے اور ہنگامہ کیا۔ اس دوران پولیس کے ساتھ ہوئی ہاتھاپائی میں کچھ طلبا کو چوٹیں بھی آئیں۔ دوسری جانب ڈاکٹروں کے کام کے بائیکاٹ اور علاج نہ ملنے کے سبب نصف درجن مریضوں نے دم توڑ دیا۔
کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی کا بندوبست پوری طرح درہم برہم ہو گیا۔ جونیئر ڈاکٹروں نے صبح سے ہی ہنگامہ شروع کر دیا۔ ڈاکٹر اس وقت مزید مشتعل ہو گئے جب انہیں پتہ چلا کہ پی جی ایم ای کی کونسلنگ نیشنل کالج میں پولیس کی موجودگی میں شروع ہو گئی ہے۔ کے جی ایم یو میں یہ اطلاع ملتے ہی جونیئر ڈاکٹروں نے او پی ڈی بند کر دی۔ عمارت کا گیٹ بند کر کے انہوں نے مریضوں کو اندر آنے سے روک دیا۔ اس پر بھی بات نہیں بنی تو انہوں نے ٹراماسینٹر کی خدمات بھی بند کر دیں۔ ان کا ساتھ دیتے ہوئے کوئن میری اور ڈینٹل سمیت سبھی مقامات پر ڈاکٹروں نے کام کا بائیکاٹ کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میڈیکل یونیورسٹی میں ہڑتال جیسا ماحول ہو گیا۔کیمپس میں ہنگامہ کرنے والے کچھ طلبا نے بتایا کہ ہڑتال اور کام کے بائیکاٹ کی اطلاع انہوں نے وائس چانسلر اور پراکٹر سمیت سبھی افسران کو دے دی ہے۔
کونسلنگ رکوانے میں ناکام ہونے پر ڈاکٹروں نے بند کی او پی ڈی
زبردست ہنگامہ اور مظاہرہ کے بعد بھی جب کے جی ایم یو کے جونیئر ڈاکٹر پی جی ایم ای کی کونسلنگ بند نہ کر اسکے تو انہوں نے دوشنبہ کو او پی ڈی اور ٹرامہ سہولتیں بند کر دیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں باہر مریض درد سے تڑپتے رہے۔ ڈاکٹر صبح او پی ڈی عمارت میں اندر گئے جس کے بعد انہوں نے اندر سے گیٹ بند کر کے مریضوں کو باہر کر دیا۔ ڈاکٹروں کے اس حرکت کی اطلاع جب ایڈمنسٹریٹو بلڈنگ پہنچی تو انہوں نے پولیس کو معاملے کی اطلاع دے کر ذمہ داری سے دامن جھاڑ لیا۔ پولیس فوراً موقع پر پہنچی اور گیٹ کھلوانے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹروں نے گیٹ کھولنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کا مستقبل خطرے میں ہے ایسے میں وہ کسی بھی بات کو نہیں مانیںگے لیکن کسی بھی اعلیٰ افسر نے موقع پر پہنچ کر ڈاکٹروں سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوردراز سے آئے مریضوں کو بیرنگ واپس جانا پڑا۔ درد سے کراہ رہے مریض او پی ڈی عمارت کے باہر اسٹریچر پر پڑے گیٹ کھلنے کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن ان کا انتظار ختم نہیں ہوا۔کافی دیر بعد سی ایم ایس ڈاکٹر ایس سی تیواری و میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر وجے کمار ٹراما سینٹر پہنچے اور ڈاکٹروں سے گیٹ کھول کر علاج کرنے کی گذارش کی لیکن ڈاکٹروں نے ان کی بات ماننے سےبھی انکار کر دیا۔ ادھر ٹراما سینٹر کے باہر بھی مریضوں کا برا حال تھا۔ مریضوں نے اس کیلئے میڈیکل یونیورسٹی انتظامیہ کو قصوروار بتاتے ہوئے کہا کہ افسران کو اس مسئلہ کو حل کرنا چاہئے۔
ٹراما کے باہر مچی رہی چیخ وپکار
لکھنؤ:جونیئر ڈاکٹروں کی غیر اعلانیہ ہڑتال ا ور ہنگامہ کے سبب ٹراما سینٹر کے باہر دوشنبہ کو ایسے درجنوں مریض آئے جو درد سے کراہ رہے تھے لیکن انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔ دوردراز سے علاج کیلئے آئے مریض ڈاکٹروں کی خوشامد کرتے رہے لیکن ان کا دل نہیں پسیجا۔ ڈاکٹروں نے علاج تو دور مریضوں کو ٹراما سینٹر کے گیٹ کے اندر تک نہیں داخل ہونے دیا۔ بارہ بنکی بدوسرائے سے آئے محمد ویس کے پیر میں فریکچر ہو گیا تھا لیکن ان کا علاج ٹراما سینٹر میں نہیں ہو سکا۔ ٹراما پہنچنے پر انہیں پتہ چلا کہ ہڑتال ہے اور انہیں بھرتی نہیں کیاجا سکتا۔ اسی طرح بستی کے پریم چندر کی آنتوں میں سوجن تھی جس کی وجہ سے وہ درد سے تڑپ رہے تھے۔ ٹراما آئے پریم چندر کو اسٹریچر تک نہیں ملا اور وہ زمین پر پڑے درد سے کراہتے رہے۔
اسی طرح سیتاپور کے پنڈت پوروا کے چالیس سالہ مشتقاق ایک حادثہ میں زخمی ہوئے تھے گذشتہ جمعرات سے ٹراما سینٹر میں ان کا علاج جاری تھا دوشنبہ کو صبح ان کی موت ہو گئی۔ لیکن ان کی لاش دوپہر بعد تک باہر نہیں نکالی جا سکی۔وہیں فیض آباد سے آئی ایک عورت نے ایمرجنسی میں دم توڑ دیا۔
اس کے علاوہ مہاویر نام کے ایک دیگر مریض کی بھی ٹراما سینٹر موت ہو گئی۔ ٹراما کے باہر روتے بلکتے تیمارداروں نے الزام عائد کیا کہ اگر ان کے مریض کو وقت پر علاج ہو جاتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔
زچاؤں کوبھی کوئن میری نے نہیں کیا بھرتی
یو پی پی جی ایم ای کی کونسلنگ کی مخالفت میں ٹراما و او پی ڈی خدمات بند کر کے کام کا بائیکاٹ کر رہے جونیئر ڈاکٹروں کا خاتون اکائی کی جانب سے بھی تعاون ملا۔ دوپہر میں کوئن میری کی ایمرجنسی میں زچاؤں کی بھرتی بند کر دی گئی۔ ایک درجن سے زیادہ زچاؤں کو واپس کر دیا۔ کچھ نے سیکورٹی گارڈوں سے اندر جانے کی اجازت مانگی لیکن ڈاکٹروں کی سختی کی وجہ سے انہوں نے اندر نہیں جانے دیا۔ چینل گیٹ سے بھی عورتوں کو واپس کیا گیا۔ مریضوں کا کہنا تھا کہ اتوار کی رات ڈاکٹر آئے تھے لیکن دوشنبہ کو کوئی نہیں آیا۔