احمد آباد:گجرات کے گودھرا میں 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے کو جلائے جانے کے ایک دن بعد یہاں میگھاني نگر علاقے میں اقلیتی کمیونٹی کے خاندانوں کی رہائش والے گلبرگ سوسائٹی میں بھیڑ کی طرف سے زندہ جلا کر مار دیئے گئے 69 لوگ، جن میں کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری بھی شامل تھے ،
میں بدنام زمانہ گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس میں مجرم ٹھہرائے گئے 24 لوگوں میں سے قتل کے 11 مجرم کو یہاں آج خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔قتل کی کوشش کے ایک مجرم کو دس سال اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر اتل وید سمیت باقی 12 کو سات سال کی سزا سنائی۔خصوصی عدالت کے جج پی بی دیسائی نے اس واقعہ کو ریرسٹ آف ریر (کبھی کبھار ہی ہونے والا واقعہ) ماننے سے انکار کرتے ہوئے مجرمین کو پھانسی کی سزا نہیں سنائی۔ عدالت نے گزشتہ 2 جون کو اس معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے مسٹر وید سمیت 24 ملزمان کو مجرم قرار دیا تھا اور بی جے پی کے اس وقت کے اور موجودہ کونسلر وپن پٹیل، کانگریس لیڈر میگھجي چودھری اور پولیس افسر کے جی ارڈا سمیت 36 دیگر کوبری کر دیا تھا۔ کل 66 ملزمان میں سے چھ کی مقدمے کی سماعت کی مدت میں موت ہو گئی تھی۔
عدالت نے حالانکہ اس معاملے میں منصوبہ بند سازش ماننے سے انکار کرتے ہوئے تمام ملزمان کے خلاف لگائی گئی متعلقہ تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی کو ہٹا لیاتھا۔سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی خصوصی عدالت کے جج پی بی دیسائی نے 24 قصورواروں میں سے 11 کو قتل اور دیگر الزامات اور 13 کو فساد برپا کرنے کا مجرم ٹھہرایا ہے ۔ مجرم قرار دیے گئے وی ایچ پی لیڈر اتل وید کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 143، 147، 148، 149، 153، 186، 188، 427، 435، 436 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے ۔ انہیں قتل یا دیگر سنگین جرائم کا ملزم نہیں بنایا گیا ہے ۔ ایس آئی ٹی کے وکیل آر سی کوڈکر نے یواین آئی کو بتایا کہ اس معاملے میں 66 ملزم تھے جن میں سے نو گزشتہ تقریبا 14 سال سے جیل میں ہیں۔ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے آج عدالت کے احاطے کے ارد گرد حفاظت کے کڑے انتظام کئے گئے تھے ۔ سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے وکیل آر سی کوڈکر نے آج بتایا کہ 17 جون کو عدالت جب سزا سنائے گي تو قصوروار عدالت میں موجود رہیں گے ۔ عدالت نے گزشتہ نو جون کو انہیں اس سے چھوٹ دی تھی۔
واضح رہے کہ سماعت کے دوران مسٹر کوڈکر نے عدالت سے 24 میں سے 11 مجرموں جنہیں قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے کو پھانسی یا کم از کم عمر قید کی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ انہوں نے اس واقعہ کو ٹھنڈے کلیجے (کولڈ بلڈیڈ) سے کیا گیا قتل اور نادر واقعات میں سے بھی کبھی کبھار ہی ہونے والا واقعہ (ریریسٹ آف ریر) قرار دیا تھا۔ مدعا علیہان کے وکلاء نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ قصورواروں کو پھانسی کی سزا نہیں دی جانی چاہئے اور انہیں سدھرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ وہ پیشہ ورانہ مجرم نہیں ہے اور انہوں نے ضمانت کی مدت کے دوران بھی کبھی ثبوت سے چھیڑ خانی کی کوشش نہیں کی۔مدعا علیہان کے وکلاء نے عدالت سے نرمی کا رخ دکھانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجرم ٹھہرائے گئے لوگ پیشہ ورانہ مجرم نہیں ہیں اور مذکورہ واقعہ آنجہانی جعفری کے اس دن اکساوے والی فائرنگ کے واقعہ کی وجہ سے ہوا۔ ان کی طرف سے کی گئی فائرنگ میں ایک شخص کی موت ہو گئی تھی اور 15 زخمی ہوئے تھے ۔ اس معاملے میں باقاعدہ ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ یہاں میگھاني نگر میں واقع مذکورہ سوسائٹی میں یہ واقعہ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آگ لگائے جانے کے ایک دن بعد یعنی 28 فروری 2002 کو ہوا تھا۔ یہ معاملہ گجرات فسادات سے جڑے ان نو معاملات میں شامل ہے جس کی جانچ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی نے کی تھی۔سپریم کورٹ نے مارچ 2008 میں گجرات کی اس وقت کی نریندر مودی حکومت کو سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آر کے راگھون کی سربراہی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل کرنے کا حکم دیے تھے ۔ ایس آئی ٹی نے فروری 2009 سے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی تھی۔ اس معاملے میں مسٹر مودی کے کردار پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے بعد میں ایس آئی ٹی نے انہیں کلن چٹ دے دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی روز انہ سماعت اور بعد میں فیصلہ سنانے پر روک لگانے کے احکامات دیے تھے ۔گذشتہ فروری ماہ میں عدالت نے فیصلہ سنانے پر روک ہٹا لی تھی۔ مذکورہ واقعہ میں مارے گئے کل 69 میں 30 کی لاشیں نہیں مل سکی تھیں۔ اسے گجرات کے 2002 کے فسادات کے سب سے بڑے قتل عام میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔
سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی)کے وکیل آر سی کوڈکر نے سماعت کے دوران عدالت سے 24میں سے 11قصورواروں کو جنہیں قتل کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے ،پھانسی اور کم از کم عمر قید کی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوں نے اس واقعہ کو سوچ سمجھ کر (کولڈ بلڈڈ )کئے گئے قتل اور کبھی کبھار ہونے والے واقعات میں سے بھی ریئریسٹ آف رئیر واقعہ قرار دیا تھا۔بچاؤفریقوں کے وکیلوں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ قصورواروں کو پھانسی کی سزا نہیں دی جانی چاہیے اور انہیں سدھرنے کا موقع دیا جانا چاہیے ،وہ پیشہ ور مجرم نہیں ہیں اور انہوں نے ضمانت کے وقفے کے دوران بھی کبھی ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش نہیں کی۔بچاؤفریق کے وکیلوں نے عدالت سے نرمی کا رخ دکھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قصوروار ٹھہرائے گئے لوگ پیشہ ور مجرم نہیں ہیں اور وہ واقعہ اس دن مرحوم جعفری کی اکسانے والے فائرنگ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ان کی جانب سے کی گئی فائرنگ میں ایک شخص کی موت ہوگئی تھی اور دیگر 15زخمی ہوئے تھے ۔
اس معاملے میں باقاعدہ ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔قابل ذکر ہے کہ یہاں میگھنی نگر میں واقع سوسائٹی میں یہ واقعہ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آگ لگائے جانے کے ایک دن بعد یعنی 28فروری 2002 کو پیش آیا تھا۔یہ معاملہ گجرات فسادات سے جڑے ان نو معاملوں میں شامل ہے جس کی جانچ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی نے کی تھی۔دعدالت عظمیٰ نے مارچ2008میں گجرات کی اس وقت کی نریندر مودی حکومت کو سی بی آئی کے سابق ڈائیریکٹر آر کے راگھون کی صدارت میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی۔ایس آئی ٹی نے فروری 2009 سے اس معاملے کی جانچ شروع کی تھی۔اس معاملے میں مسٹر مودی کے کردار پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے لیکن بعد میں ایس آئی ٹی نے انہیں کلین چٹ دے دی تھی۔عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی روزانہ سماعت اور فیصلہ سنانے پر پابندی لگانے کا حکم دیا تھا۔گزشتہ فروری ماہ میں عدالت نے فیصلہ سنانے پر پابندی ہٹا لی تھی۔اس واقعہ میں مارے گئے کل 69میں سے 30کی لاش تک نہیں مل سکی تھی۔اسے گجرات میں 2002میں ہوئے فسادات میں سب سے بڑا اجتماعی قتل کا واقعہ مانا جاتا ہے ۔