عبدالستار ایدھی اٹھاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ فیصل ایدھی کوہی نہیں پوری قوم کو یتیم کرگئے،ان کا جسد خاکی میٹھا در پہنچا دیا گیا۔آخری سفرپرروانگی سے قبل بیٹے فیصل ایدھی نے میت کو غسل دیا ۔ نماز جنازہ آج ظہر کی نماز کے بعد نیشنل اسٹیڈیم میں ادا کی گئی
۔
عبدالستار ایدھی کو وصیت کے مطابق انہی کے کپڑوں میں سپرد خاک کیا جائے گا ۔ میت کی سردخانے سے منتقلی سے قبل وصیت کے عین مطابق آنکھیں بھی عطیہ کردی گئیں ۔اپنی قبر پچیس سال قبل خود ایدھی ولیج میں کھودی تھی ۔ فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ ایدھی صاحب کے جنازے کے لیے کوئی سڑک بند نہ کی جائے۔
ایدھی کےانتقال پر پاکستان بھر میں سوگ، ہرآنکھ اشک بار ہے۔صدرممنون کا کہنا ہے عبدالستارایدھی کی خدمات ہمیشہ یادرکھی جائیں گی ۔وزیراعظم نواز شریف نے ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔
امریکا میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی بولے ایدھی صاحب کے لیے بعد از مرگ نوبل انعام کی کوشش کریں گے۔اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا ہے ایدھی صاحب کی زندگی قابل تقلید ہے ۔ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کہتی ہیں ایدھی صاحب کی خدمات یاد رکھنے کےلیے ان کا مشن جاری رکھنا ہوگا۔
بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے عبدالستار ایدھی کےانتقال پر گہرےدکھ کا اظہار کیا،کہتی ہیں عبدالستار ایدھی عظیم انسان تھے، ساری زندگی انسانیت کی خدمت کےلیےوقف کررکھی تھی۔
خیرات کی ایک بھی پائی ایدھی نے اپنے اوپر خرچ کرناحرام سمجھا،بیرون ملک علاج کی پیش کش مستردکردی، شدید علالت میں بھی سرکاری اسپتال میں علاج ہی کو ترجیح دی۔
ایمبولینس سروس، ایدھی ہومز، لاوارث بچوں کے لیے جھولے کی سہولت، بے شمار یتیم خانوں کا انتظام، سیکڑوں اسپتال اور کلینک میں علاج ، یہی نہیں انسانیت کے لیے عبدالستار ایدھی کیان گنت خدمات ہیں ۔