برطانیہ میں باحجاب مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب معاشرے میں اسے جائز عمل سمجھا جانے لگا ہے۔
برطانوی دارالعوام کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ مسلم خواتین جو اسکارف پہنتی ہیں، انہیں ملازمت کی جگہوں اور روزگار کے مواقعوں کے حوالے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے اور یہ رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ برطانوی معاشرے نے اس رویے کو قبول کرلیا ہے اور زیادہ تر لوگ اب اسے امتیازی سلوک ہی نہیں سمجھتے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم خواتین جو ماضی میں کئی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے قانون اور دیگر شعبوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں انہیں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور لوگوں میں یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ وہ اطاعت گزار اور کمزور ہوتی ہیں۔
برطانوی دارالعوام کی ویمن اینڈ ایکوالٹیز کمیٹی کو بتایا گیا کہ بعض مسلم خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر انہیں اچھی ملازمت چاہیے تو وہ روایتی اسلامی لباس پہننا ترک کردیں۔
مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ ان سے انٹرویو کے دوران غیر قانونی طور پر تفتیشی سوالات کیے جاتے ہیں کہ آیا وہ شادی شدہ ہیں یا نہیں اور ان کے بچے ہیں یا بچوں کا ارادہ ہے؟۔
جو مسلم خواتین پہلے ہی ملازمت کررہی ہیں انہیں بھی دفتر میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور انتظامیہ اہم ذمہ داریاں مسلم خواتین کو دینے سے گریز کرتی ہے کیوں کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں عام طور پر بے روزگاری کی شرح 5.4 فیصد ہے جبکہ مسلم کمیونٹی میں یہ شرح 12.8 فیصد تک جاپہنچی ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ کمپنیوں سے بھی کہا جائے کہ وہ ملازمت کے لیےنام کے بغیر درخواستیں وصول کرنے کا سلسلہ شروع کریں تاکہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ غیر ارادی طور پر ہونے والے امتیازی سلوک سے بچا جاسکے اور ضرورت پڑے تو اس کیلئے قانون میں بھی تبدیلی کی جائے۔
مسلم خواتین پر ہونے والے حملوں کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بہت سی خواتین صرف ایسی نوکری کو ترجیح دینے لگی ہیں جس میں شام کے بعد باہر نکلنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
برطانیہ کے مسلم ویمنز نیٹ ورک نے کمیٹی کو ایک تحریری طور پر آگاہ کیا کہ انٹرویو کے دوران خواتین سے ان کی قابلیت اور تجربے کے بجائے مذہبی عقائد سے متعلق زیادہ سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔
ویمن کمیٹی کی چیئرمین ماریہ ملر کہتی ہیں ہےکہ’’ مسلمانوں میں یہ تاثر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کی مدد کیلئے کی جانے والی مداخلت بھی شدت پسندی کو روکنے کی حکمت عملی اور انسداد شدت پسندی پالیسی کا حصہ ہے اور اس تاثر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘