سری نگر: وادی کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے کچھ حصوں سے منگل کو دس روز بعد کرفیو ہٹالیا گیا، تاہم شہر میں حساس مانے جانے والے ڈاون ٹاون اور شہرخاص میں کرفیو کا نفاذ آج مسلسل 46 ویں روز بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ جنوبی کشمیر کے قصبہ اننت ناگ میں بھی کرفیو کا نفاذ جاری رکھا گیا ہے ۔
سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ سری نگر کے ڈاون ٹاون اور شہرخاص کے صفاکدل، رعناواری، خانیار، نوہٹہ اور ایم آر گنج اور سیول لائنز کے مائسمہ، کرالہ کڈھ اور بتہ مالو کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو کا نفاذ جاری رکھا گیا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ شہر کے دوسرے علاقوں بالخصوص بالائی شہر میں 13 اگست کو عائد کردہ کرفیو ہٹالیا گیا ہے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ قصبہ اننت ناگ میں کرفیو کا نفاذ جاری رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وادی کے جن علاقوں کو کرفیو سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کر رکھی گئی ہے ۔ وادی میں کرفیو اور ہڑتال کے باعث منگل کو مسلسل 46 ویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے ۔ وادی کے اطراف واکناف میں دکانیں اور تجارتی مراکز گزشتہ45دنوں سے مسلسل بند ہیں جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آواجاہی بھی معطل ہے ۔
وادی میں جاری ‘آزادی حامی’ احتجاجی مظاہروں کی لہر میں مرنے والے شہریوں کی تعداد 67 تک جاپہنچی ہے ۔ زخمی شہریوں کی تعداد 5 ہزار ہے جن میں کم از کم دو سو افراد آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں۔
احتجاجی لہر کے دوران دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ قریب 3 ہزار سی آر پی ایف و پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ اگرچہ شہر کے سیول لائنز اور بالائی حصوں کے متعدد علاقوں سے خاردار تاریں ہٹالی گئی ہیں، تاہم سیکورٹی فورسز بشمول بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کو بدستور تعینات رکھا گیا ہے ۔ سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت کو شہر کے قلب تاریخی لال چوک، مولانا آزاد روڑ، ریذیڈنسی روڑ، ریگل چوک، بڈشاہ چوک اور سیول لائنز کے دوسرے علاقوں میں تعینات دیکھا جاسکتا ہے ۔
یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے منگل کی صبح بالائی شہر، سیول لائنز اور متعدد مضافاتی علاقوں کا دورہ کیا، نے لوگوں کو بڑی تعداد میں اشیائے ضروریہ بشمول سبزیوں، دودھ اور روٹی کی خریداری میں مصروف دیکھا۔ تاہم اِن علاقوں میں آٹھ بجتے ہی تمام دکانیں بند ہوئیں اور چھاپڑی فروش سڑکوں سے غائب ہوئے ۔
کرفیو اور پابندیوں کے باوجود وادی کے بیشتر علاقوں میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کے علاوہ احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات مسلسل موصول ہورہی ہیں۔ شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز نے منگل کی صبح احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے اُس وقت آنسو گیس کا استعمال کیا جب وہ ‘آزادی کے حق میں’ اور ‘سیکورٹی فورسز کے خلاف’ نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ۔ اس دوران ریاستی وزیر تعلیم نعیم اختر نے اِن قیاس آرائیوں کو مسترد کیا ہے کہ ریاستی حکومت موجودہ صورتحال کے چلتے دسویں جماعت تک کے طلبہ کو امتحانات میں شریک ہوئے بغیر اگلے کلاسوں میں داخلہ دینے پر غوروخوض کررہی ہے ۔
انہوں نے طلبہ کو ماس پروموشن (امتحانات میں شریک ہوئے بغیر اگلے کلاسوں میں داخلے ) کو مسترد کرتے ہوئے جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کو امتحانات بالخصوص دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات منعقد کرانے کے سلسلے میں تیاریاں شروع کرنے کی ہدایت دے دی ہے ۔ تاہم وزیر تعلیم کی اِن ہدایات پرانہیں والدین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے الزام عائد کیا کہ ابھی تک 40 فیصد نصاب بھی مکمل نہیں کرلیا گیا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ وادی میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے گذشتہ 54 روز سے بدستور بند پڑے ہیں۔ ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیم نے وادی کشمیر اور خطہ جموں کے سرمائی زون میں ہائیر سکینڈری سطح تک کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یکم جولائی سے 17 روزہ گرمائی تعطیلات کا اعلان کیا تھا۔ تاہم وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے پیش نظر گرمائی تعطیلات میں 25 جولائی تک توسیع کا اعلان کیا گیا تھا۔ اگرچہ توسیع کردہ گرمائی تعطیلات کے درمیان وزیر تعلیم نے وادی کے چار اضلاع شمالی کشمیر کے بارہمولہ و بانڈی پورہ اور وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام میں 20 جولائی سے تعلیمی سرگرمیاں بحال کرانے کا حکم جاری کردیا تھا، لیکن اسکولوں میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر درج کی گئی تھی۔
طلباء کو تعلیمی اداروں میں واپس لانے کی اس کوشش کی ناکامی کے بعد ریاستی حکومت نے کسی دوسری عملی پہل کی زحمت نہیں اٹھائی۔ اگرچہ 9 اگست کو ناظم تعلیم کشمیر نے اپنے آفیشل فیس بک پیج کے ذریعے طلباء سے اسکولوں میں واپس آنے کی جذباتی اپیل کی تھی، تاہم وادی میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات معطل رہنے کے باعث یہ اپیل طلباء تک نہیں پہنچ پائی تھی۔
ناظم تعلیم کشمیر نے اپنے فیس بک پوسٹ میں بچوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا’آپ کے بغیر ہمارے دن بے جان ہیں۔ بچوں، آپ اسکول کب واپس آرہے ہو؟ آخری مارننگ اسمبلی اور دوپہر کی ہڈل کو دیکھے ہوئے بہت دن گMر گئے ہیں۔ اس سے قبل کہ ہم درس و تدریس کا فن اور آپ سیکھنے کا مزہ بھول جائیں واپس آجاؤ ۔ پرانی دوستی کو بچانے کے لئے واپس آجاؤ۔ ہم آپ کو بہت یاد کرتے ہیں’۔
ناظم تعلیم کی اپیل والے اس فیس بک پوسٹ پر وادی کشمیر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی سہولیت رکھنے والے افراد یا وادی سے باہر مقیم کشمیریوں نے شدید تنقیدی تبصرے کئے تھے ۔ ایک صارف نے اپنے ردعمل میں کہا تھا ‘سر، ہم بھی اسکول جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ لیکن ہم میں سے بعض ایسے ہیں جو اَب بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہم اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں۔
پیلٹ بندوقوں نے ہم سے ہماری زندگیاں چھین لی ہیں۔ کیا ہم اب بھی اپنے اسکولوں کو جاسکتے ہیں؟’۔ تاہم تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیوں کی معطلی کے درمیان وادی کے کچھ علاقوں میں پڑھے لکھے نوجوان اپنے محلوں اور گاؤں میں صبح اور شام کے وقت بچوں کو پڑھارہے ہیں۔ سری نگر کے سیول لائنز میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کا گڑھ مانے جانے والے مائسمہ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے بدستور بند رکھا گیا ہے ۔ کسی بھی شہری کو مائسمہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ اسی طرح بتہ مالو میں بھی سخت ترین کرفیو کا نفاذ جاری رکھا گیا ہے ۔
شہرخاص اور ڈاون ٹاون کی صورتحال میں 9 جولائی سے کوئی تبدیلی دیکھی نہیں جارہی ہے ۔ نالہ مار روڑ کے دونوں اطراف چھتہ بل سے خانیار تک رہائش پذیر لوگوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔
انہوں نے بتایا ‘سیکورٹی فورس اہلکار ہمارے گھروں کے نذدیک تعینات کردیے گئے ہیں اور وہ ہمیں اپنے گھروں کے اندر ہی رہنے کو کہہ رہے ہیں’۔ لوگوں نے بتایا کہ انہیں اشیائے ضروریہ خاص طور پر بچوں کی خوراک ، دودھ اور سبزیوں کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ عبدلرحمان نامی ایک شہری نے بتایا کہ سخت کرفیو کے نفاذ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لایا ہے کیونکہ لوگ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک دوسرے سے کھانیں کی چیزیں مانگ رہے ہیں۔ ڈاون ٹاون کے رہائشیوں نے بتایا کہ علاقہ میں 15 اگست کو ہونے والی ایک جھڑپ کے بعد سے سخت ترین کرفیو نافذ ہے ۔انہوں نے بتایا کہ یہاں تک کہ خواتین اور بچوں کو بھی اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔
نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد جہاں 9 جولائی سے نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی گئی، کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خاردار تار سے سیل رکھا گیا ہے جبکہ علاقہ میں پابندیوں کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے ۔ شہرخاص اور ڈاون ٹاون کے رہائشیوں نے بتایا کہ گذشتہ چند دنوں کے دوران ٹرکوں اور مختلف دیگر گاڑیوں کے ذریعے سینکڑوں کی تعداد سیکورٹی فورسز اہلکاروں کو وہاں پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت علاقہ میں مزید سیکورٹی فورس بنکر قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔
دریں اثنا جنوبی کشمیر کے قصبہ اننت ناگ میں کرفیو کا نفاذ آج مسلسل 46 ویں روز بھی جاری رہا۔
علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وادی میں جاری ہڑتال میں 25 جولائی تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ۔ کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا احتجاجی مارچ کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند لیڈران کو یا تو اپنے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے ، یا پولیس تھانوں میں مقید رکھا گیا ہے ۔اس دوران بارہمولہ سے موصولہ ایک رپورٹ شمالی کشمیر کے اس اور دیگر قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں آج مسلسل 46 ویں روز بھی دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آواجاہی معطل رہی۔ ایسی ہی رپورٹیں جنوبی کشمیر اور وسطی کشمیر کے قصبہ جات اور تحصیل ہیڈکوارٹروں سے بھی موصول ہوئیں۔