سری نگر:مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے دورہ کشمیر اور ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے کشمیری نوجوانوں سے متعلق مبینہ اشتعال انگیز بیان کے ایک روز بعد تقریباً پورے کشمیر میں سخت ترین کرفیو نافذ کردیا گیا ہے ۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ پورے گرمائی دارالحکومت سری نگر کے علاوہ شمالی کشمیر کے ایپل ٹاون سوپور اور کپواڑہ کو چھوڑ کو وادی کے دیگر تمام قصبوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں کو کرفیو سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی بدستور جاری رکھی گئی ہے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وادی کے بیشتر علاقوں کو کرفیو کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو ٹالنے کی خاطر احتیاطی اقدام کے طور پر لیا گیا ہے ۔
اگرچہ سرکاری ذرائع نے کرفیو کے نفاذ میں توسیع کے معاملے پر مزید کچھ کہنے سے گریز کیا، تاہم ظاہری طور پر اسے (کرفیو کو) علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کی طرف سے دی گئی ‘سری نگر کے تاریخی عیدگاہ تک آزادی مارچ نکالنے ‘ کی کال اور ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جانب سے کشمیری نوجوانوں سے متعلق دیے گئے مبینہ اشتعال انگیز بیان کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر نافذ کردیاگیا ہے ۔
محبوبہ مفتی نے جمعرات کو وزیر داخلہ کے ساتھ دی گئی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وادی میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں نوجوانوں کی ہلاکت کو جواز بخشتے ہوئے کہا کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے نوجوان فوجی کیمپوں اور پولیس تھانوں پر ٹافی یا دودھ خریدنے کے لئے نہیں گئے تھے ۔محترمہ مفتی کے اس بیان پر وادی کشمیر کے عوام میں غم و غصے کی لہر پیدا ہوگئی ہے ۔ تاہم وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے دوران کچھ اہم اعلانات کئے ۔
انہوں نے کشمیر پر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے فارمولے ‘انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت’ کے دائرے میں سبھی لوگوں سے بات چیت کی مرکزی سرکاری کی آمادگی ظاہر کرنے کے علاوہ مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے بات چیت کے لئے کل جماعتی وفد کشمیر بھیجنے اور کچھ دنوں کے اندر چھرے والی بندوق کا متبادل سامنے لانے کے اعلانات کئے ۔تاہم حریت کانفرنس نے وزیر داخلہ کے اعلانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام کشمیر کے مسئلے کا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل چاہتے ہیں جبکہ عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) کے سربراہ انجینئر شیخ عبدالرشید نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ملاقات کرکے انہیں بتایا ہے کہ جموں کشمیر کے مسئلے کا واحد حل سرحد کے دونوں طرف کے لوگوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے میں ہے ۔
دریں اثنا وادی میں کرفیو اور ہڑتال کے باعث جمعہ کو مسلسل 49 ویں روز بھی معمولات زندگی مفلوج رہے ۔ وادی کے اطراف واکناف میں دکانیں اور تجارتی مراکز گذشتہ48دنوں سے مسلسل بند ہیں جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آواجاہی بھی معطل ہے ۔ وادی کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے جہاں گذشتہ ماہ کی یکم تاریخ سے بدستور بند پڑے ہیں، وہیں سرکاری دفاتر میں معمول کا کام کاج 9 جولائی سے بدستور ٹھپ پڑا ہے ۔ وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی ‘آزادی حامی’ احتجاجی لہر کے دوران تاحال 68 عام شہری ہلاک جبکہ6 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں ۔ احتجاجی لہر کے دوران دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ قریب 4 ہزار سی آر پی ایف و پولیس اہلکار بھی زخمی ہوگئے ہیں۔ علیحدگی پسند قیادت نے وادی میں جاری ہڑتال میں یکم ستمبر تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ۔ اس دوران علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی ‘عیدگاہ آزادی مارچ’ کی کال کو ناکام بنانے کے لئے ڈاون ٹاون میں واقع عیدگاہ علاقہ جہاں گذشتہ 9 جولائی سے کرفیو کا نفاذ جاری ہے ، کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا ہے ۔
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان سید علی گیلانی اور میرواعظ مولوی عمر فاروق کو عیدگاہ کی طرف کسی بھی مارچ کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے اپنی رہائش گاہوں پر نظر بند جبکہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو سینٹرل جیل سری نگر میں مقید رکھا گیا ہے ۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے ڈاون ٹاون اور شہرخاص کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے عیدگاہ کے اردگرد سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کو تعینات دیکھا۔ علاقہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ اگرچہ اُن کے علاقے میں 9 جولائی سے غیرمعینہ مدت کا کرفیو نافذ ہے لیکن کرفیو کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے آج سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے ۔عیدگاہ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں بشمول چھتہ بل، صفا کدل، نالہ مار اور دیگر تمام گلی کوچوں کو خاردار تار سے بند کردیا گیا ہے جبکہ کسی بھی شہری کو عیدگاہ کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ انہیں مساجد میں فجر کی نماز ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ عیدگاہ مارچ کو ناکام بنانے اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر پورے ضلع سری نگر کو آج کرفیو کے دائرے میں لایا گیا ہے ۔
اگرچہ سری نگر بالخصوص عیدگاہ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے بند رکھا گیا ہے ، تاہم شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑک کو ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل اسٹاف اور بیماروں کی نقل وحرکت کے لئے پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔ مضافاتی علاقوں سے سری نگر کے سیول لائنز اور بالائی شہر کی طرف جارہے دودھ اور سبزی فروشوں کو سیکورٹی فورسز نے جمعہ کی علی الصبح بائی پاس اور دوسری مقامات پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں سے آگے جانے کی اجازت نہ دیتے ہوئے واپس بھیج دیا۔سری نگر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو جانے والے روڑ پر بھی کئی ایک مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ تاہم ہوائی جہاز کی ٹکٹیں رکھنے والے افراد کو چلنے کی اجازت دی جارہی ہے ۔ شہر کے قلب تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بند رکھا گیا ہے ۔مختلف علاقوں کو لال چوک سے ملانے والے امیرا کدل، آفتاب گلی، لالا رخ گلی، کورٹ روڑ اور دیگر گلی کوچوں کو خاردار تار سے بند رکھا گیا ہے ۔ لال منڈی کو لال چوک سے ملانے والے فٹ برج کو بند راہگیروں کی نقل وحرکت کے لئے بند رکھا گیا ہے ۔
سیکورٹی فورسز نے سرکاری مواصلاتی کمپنی بی ایس این کے ہیڈ آفس، یو این آئی، ڈیلی جاگرن، واٹر ورکس ڈیپارٹمنٹ اور گرلز ہائیر سکینڈری اسکول کوٹھی باغ کی طرف جانے والے ایکسچینج روڑ کو بھی بند کردیا ہے ۔ ایسی ہی رکاوٹیں بربرشاہ، ٹرانسپورٹ برج اور مولانا آزاد و ریذیڈنسٹی روڑ پر بھی کھڑی کی گئی ہیں۔ سری نگر کے سیول لائنز میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کا گڑھ مانے جانے والے مائسمہ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے بدستور بند رکھا گیا ہے ۔کسی بھی شہری کو مائسمہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ بڈشاہ چوک، گاؤ کدل اور ریڈکراس روڑ پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو بھی جاری رکھا گیا ہے ۔ یو این آئی کے نامہ نگار جس نے شہر کے کئی مضافاتی علاقہ کا دورہ کیا، نے بتایا کہ مختلف اضلاع اور مضافاتی علاقوں کو سری نگر کے ساتھ ملانے والی تمام سڑکوں خاردار تار سے سیل کردیا گیا ہے اور اِن سڑکوں پر کھڑا کی گئی رکاوٹوں پر تعینات سیکورٹی فورس اور ریاستی پولیس اہلکار کسی بھی گاڑی یا فرد کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
تاہم ایمبولینس گاڑیوں، ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف، بیماروں اور لازمی خدمات سے وابستہ افراد کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد انہیں نقل وحرکت کی اجازت دی جارہی ہے ۔ وادی کے دوسرے علاقوں خاص طور پر جنوبی کشمیر کے چار اضلاع اننت ناگ، شوپیان، پلوامہ اور کولگام، وسطی کشمیر کے بڈگام و گاندربل اضلاع اور شمالی کشمیر کے تین اضلاع بانڈی پورہ، بارہمولہ اور کپواڑہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اِن میں سے بیشتر قصبہ جات میں سخت ترین کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور سڑکوں پر لوگوں کی نقل وحرکت روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے ۔ جن علاقوں کو کرفیو سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، میں پابندیاں جاری رکھی گئی ہیں۔