واشنگٹن: امریکی صدر براک اوباما نے نائن الیون حملوں کے متاثرین کو سعودی عرب پر مقدمہ کرنے کی اجازت دینے سے متلعق بل کو ویٹو کردیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی کانگریس کے ایوان نمائدگان اور سینیٹ نے مذکورہ بل کی منظوری دے دی تھی اور اسے دستخط کے لیے امریکی صدر کے پاس بھیجا گیا تھا تاہم انہوں نے اس بل کے خلاف ویٹو پاور استعمال کی۔
امریکی صدر نے موقف اپنایا کہ ’یہ بل ریاستوں کی خودمختاری کے حوالے سے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہےجس کے تحت کسی بھی ملک کو بطور ریاست کسی اور ملک کی عدالت میں نہیں لایا جاسکتا‘۔
واضح رہے کہ اس بل میں نائن الیون حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونےوالے افراد کے لواحقین کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ سعودی حکومت کے ان عناصر کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمہ کرسکیں جنہوں نے مبینہ طور پر ان حملوں میں اپنا کردار ادا کیا۔
امریکی صدر اوباما نے اپنے بیان میں نائن الیون کے متاثرین کے لیے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل امریکی مفادات کے خلاف تھا۔
نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں نے امریکی صدر کے اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا جبکہ اس بات کے بھی امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس بل پر کانگریس امریکی صدر کے ویٹو کو ووٹنگ کے ذریعے مسترد کرسکتی ہے۔
مزید پڑھیں:سعودیہ کی امریکا کو اثاثے فروخت کرنے کی دھمکی
ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں صدر منتخب ہوا تو اس طرح کے بل پر ضرور دستخط کردوں گا۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے ترجمان جیسی لیہرچ کا کہنا ہے کہ ’ہیلری کلنٹن بھی اس بل پر دستخط کرنے کے حق میں ہیں‘۔
واضح رہے کہ اوباما نے اپنے ادوار صدارت میں اب تک 12 مرتبہ ویٹو کا حق استعمال کیا ہے جبکہ ان کے کسی بھی ویٹو کو کانگریس کی جانب سے مسترد نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ امریکی قوانین کے مطابق صدر کے ویٹو کو مسترد کرنے کے لیے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نائن الیون حملوں کو 15 برس بیت گئے
واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی ایوان نمائندگان نے ’جسٹس اگینسٹ اسپانسرز آف ٹیررازم ایکٹ‘ (دہشت گردوں کے مالی معاونت کاروں کے خلاف انصاف کے قانون) بل منظور کیا تھا جبکہ تقریباً 4 ماہ قبل امریکی سینیٹ میں یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔
بل کی منظوری کے خلاف سعودی حکومت کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی اور امریکی انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر سعودی حکومت کو نائن الیون حملوں میں کسی بھی قسم کے کردار کا ذمہ دار قرار دینے کے حوالے سے قانون بنایا گیا تو وہ، امریکا میں اپنے تقریباً 750 ارب ڈالرز کے اثاثے فروخت کردے گا۔
یاد رہے کہ نائن الیون کے واقعے میں 4 طیاروں کو ہائی جیک کرنے والے 19 میں سے 15 افراد سعودی شہری بتائے جاتے ہیں، تاہم ریاض کی جانب سے ان حملوں میں کسی بھی قسم کے کردار کی تردید کی جاتی رہی ہے۔