بیجنگ: چین نے اشارہ دیا ہے کہ وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ(این ایس جی) میں ہندوستان کی شمولیت کے حوالے سے ’ممکنات‘ پر غور کرنے کا خواہاں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ہندوستان نے کہا تھا کہ این ایس جی کی رکنیت کے حوالے سے اس کے چین کے ساتھ ’سنجیدہ اور بامقصد‘ مذاکرات ہوئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی این ایس جی کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ ہندوستان میں روس ، امریکا اور فرانس کی شراکت سے اربوں ڈالر کے نیوکلیئر پاور پلانٹس تعمیر کیے جاسکیں اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آلودگی پھیلانے والے ذرائع پر انحصار کم کیا جاسکے۔
اب تک ہندوستان کی این ایس جی میں شمولیت کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی کیوں کہ 48 رکنی گروپ میں چین اس کی شمولیت کا مخالف ہے اور قانون کے مطابق این ایس جی میں کسی بھی نئے رکن کی شمولیت کے لیے ضروری ہے کہ تمام ارکان اس پر متفق ہوں۔
چینی صدر شی جن پنگ رواں ہفتے برکس ممالک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیےہندوستان کا دورہ کرنے والے ہیں اور اس دورے سے قبل چین کے نائب وزیر خارجہ لی باؤ دونگ کا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ نئے رکن کی شمولیت کے لیے تمام ارکان کا متفق ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ قانون چین نے نہیں بنائے، این ایس جی کی رکنیت کے معاملے پر چین اورہندوستان کے درمیان خوشگوار رابطے رہے ہیں اور چین چاہتا ہے کہ اس معاملے پر اتفاق رائے کے لیے ہندوستان کے ساتھ بات چیت جاری رہے‘۔
لی باؤدونگ نے کہا کہ ’چین ہندوستان کی رکنیت کے حوالے سے مشترکہ طور پر ممکنات کا جائزہ لینے کا خواہاں ہے تاہم یہ این ایس جی کے چارٹر کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کے قوانین کا سب کو احترام کرنا چاہیے‘۔
واضح رہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے تحت صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کو جوہری طاقت کے حامل ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔
این ایس جی میں شمولیت کے لیے ضروری ہے کہ پہلے این پی ٹی پر دستخط کیا جائے تاہم ہندوستان نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں تاہم اس کا کہنا ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے اس کے ماضی کے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے این ایس جی میں شمولیت کی اجازت دینی چاہیے۔
ہندوستان کو 2008 میں این ایس جی کی جانب سے رعایت دی گئی تھی جس کے تحت اسے نیوکلیئر کامرس میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی تاہم اسے ادارے کی فیصلہ سازی میں ووٹ کا حق نہیں دیا گیا تھا۔
ہندوستان کی این ایس جی میں شمولیت کے حامی ممالک میں امریکا بھی شامل ہے اور انہیں امید ہے کہ جون میں سیئول میں ہونے والے این ایس جی کے سالانہ اجلاس میں ناکامی کے باوجود مستقل میں کوئی ڈیل ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ ہندوستان کی این ایس جی رکنیت میں دلچسپی کے بعد پاکستان نے بھی اپنی رکنیت کے لیے لابنگ شروع کردی تھی اور اس حوالے سے مئی میں باضاطہ طور پر درخواست بھی جمع کروائی تھی۔
تاہم جون میں ہونے والے این ایس جی کے سالانہ اجلاس میں پاکستان کی رکنیت کی درخواست پر غور ہی نہیں کیا گیا۔
چینی صدر اپنے دورہ ایشیا کے دوران بنگلہ دیش اور کمبوڈیا بھی جائیں گے۔
یاد رہے کہ ابھرتے ہوئے ممالک کے گروپ ’برکس ‘ میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔