پٹنہ ۔ وزیرقانون روی شنکر پرساد نے ’’تین طلاق‘‘ پر مرکز کے موقف کی مدافعت کرتے ہوئے آج کہا کہ جب زائد از ایک درجن اسلامی ممالک قانون وضع کرتے ہوئے اس عمل کو باقاعدہ بناسکتے ہیں تو پھر ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس کو آخر کس طرح غلط تصور کیا جاسکتا ہے۔ ان کے اس ریمارک سے ایک دن قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء نے اس ضمن میں سپریم کورٹ میں مرکز کی طرف سے داخل کردہ حلفنامہ کی مخالفت کی تھی۔
علاوہ ازیں یکساں سیول کوڈ پر لاء کمیشن کی مشاورت کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ روی شنکر پرساد نے یہاں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان، تیونس، مراقش، ایران و مصر جیسے تقریباً ایک درجن اسلامی ممالک نے تین طلاق کے طریقہ کار میں باقاعدگی پیدا کی جس کو شریعت کے خلاف قرار نہیں دیا گیا۔ اگر اسلامی ممالک قانون وضع کرتے ہوئے اس عمل کو باقاعدہ بنا سکتے ہیں تو پھر یہ (اقدام) ہندوستان میں کس طرح غلط ہوسکتا ہے جو (ہندوستان) ایک سیکولر ملک ہے۔ وزیرقانون نے تاہم یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ لاء کمیشن اس مسئلہ پر غور کررہا ہے۔ سماج کے مختلف طبقات کے نظریات سے واقفیت حاصل کی جارہی ہے۔
چنانچہ یہ مسئلہ چونکہ زیرغور ہے مجھے اس پر کچھ کہنا نہیں ہے‘‘۔ واضح رہیکہ ہندوستانی دستور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 7 اکٹوبر کو مرکز نے سپریم کورٹ میں ایک حلفنامہ داخل کرتے ہوئے مسلمانوں میں تین طلاق، نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کی مخالفت کی تھی۔ نیز صنفی مساوات اور سیکولرازم کی بنیادوں پر ان موضوعات پر دوبارہ غور کی حمایت کی تھی۔ وزارت قانون نے اپنے حلفنامہ میں منفی مساوات، سیکولرازم جیسے ہندوستانی دستوری اصولوں بین الاقوامی ضابطوں کے علاوہ مختلف اسلامی ملکوں میں مروجہ مذہبی طریقہ کار اور ازدواجی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے اس ملک میں بھی سپریم کورٹ میں حلفنامہ دائر کرتے ہوئے تین طلاق اور کثرت ازدواج جیسے مسائل پر عدالت عظمیٰ کی طرف سے ازسرنو قانونی ہدایات کی اجرائی کی استدعا کی تھی۔