ایران میں فوجی مداخلت اور بغداد حکومت کی مرضی کے بغیر موصل کی لڑائی میں شمولیت پر ترکی پرکڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ جب تک عراق حکومت اجازت نہ دے کسی ملک کو اپنی مرضی سے فوجیں داخل کرنے کاکوئی حق نہیں ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے تہران میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کو عراق میں اپنی فوج داخل کرنے پر سنگین نتائج پر خبردار کیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی آڑ میں کسی بھی ملک کا اپنی فوج عراق میں داخل کرنا اس وقت تک مناسب نہیں جب تک عراق حکومت خود اس کی درخواست نہ کرے۔ ترکی نے اپنی مرضی اور ذاتی مفادات کی خاطر فوج عراق میں داخل کی ہے اور اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ موصل میں داعش کے خلاف آپریشن میں شامل ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ موصل کے شمال میں بعشیقہ فوجی اڈے پر ترک فوج کی موجودگی قابل مذمت اور انتہائی خطرناک اقدام ہے۔ یہ ایک ایسی بدعت ہے، ممکن ہے اس کے نتیجے میں ان لوگوں کو نقصان پہنچے جن کا لڑائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز ترکی نے کہا تھا کہ شمالی عراق میں موجود اس کی فوج کرد فوج الپیشمرگہ کے ساتھ مل کر موصل میں داعش کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہے۔ ترکی کا کہنا تھا کہ ان کا توپخانہ بعشیقہ کیمپ کے قریب کرد فوج کی عسکری مدد کررہاہے جس کے نتیجے میں کرد فوج تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہے۔ حسن نصراللہ کا انتباہ
ادھر دوسری جانب لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے بھی ایران کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے عراق میں ترک فوج کی موجودگی پر سخت برہم کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق حسن نصراللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترکی کا متنازع انداز میں عراق میں فوج داخل کرنا اور موصل کی لڑائی میں حصہ لینا قابل قبول نہیں۔ ترکی کو جلد از جلد اپنی فوج عراق سے نکال لینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے عزائم خطرناک ہیں۔ وہ موصل کو عراق کا نہیں بلکہ ترکی کا شہر قرار دیتاہے۔ اس سے قبل ترکی نے شام کے حلب شہر کے بارے میں ایسا ہی دعویٰ کرتے ہوئے اپنی فوج حلب داخل کی تھی۔
حسن نصراللہ نے شامی حکومت کے خلاف انقرہ کے موقف پر بھی کڑی تنقید کی اور الزام عاید کیا کہ ترکی شام میں دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے۔