نئی دہلی:پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹوں پر پابندی کے بعد معیشت میں اچانک نقد رقم کی کمی پیدا ہو جانے کی وجہ سے قومی دارالحکومت دہلی میں ریہڑی اور پٹری والے خریداروں کی تعداد گھٹ کر ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئی ہے ،ساتھ ہی بازاروں میں بھیڑ بھی کافی کم ہو گئی ہے ۔
دہلی کے ہر بڑی مارکیٹ میں ہفتہ اور اتوار کو عام طور پر چلنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی، چلنے کے لئے بنائے گئے راستوں اور فٹ پاتھوں پر بڑی تعداد میں ریہڑی اور پٹری والے یا گھوم گھوم کر سامان فروخت کرنے والے ہوتے ہیں اور اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں ان سے سامان خریدنے والے لوگوں کا تانتا لگا رہتا ہے لیکن، گزشتہ منگل سے پرانے نوٹوں پر پابندی کے حکومت کے اعلان کے بعد پہلے اواخر ہفتہ نظارہ کچھ اور ہی تھا۔
دہلی کا دل کہے جانے والے کناٹ پلیس میں پٹری والے خریداروں کی تعداد اتوار کو انتہائی کم رہی۔ اندرونی اور بیرونی سرکل میں موجود ہر بینک کے باہر ہاتھوں میں اپنے شناختی کارڈ کی کاپی کیلئے لاکھوں لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یہ نوٹوں پر پابندی کا اثر ہے ، ایک دکاندار نے دبی آواز میں کہا “تو آپ کو اور کیا لگتا ہے ؟”
جن پتھ لین جہاں عام طور پر 200 میٹر کی دوری طے کرنے میں دس منٹ کا وقت لگ جاتا ہے وہاں آج راستے کی اصل چوڑائی دکھ رہی تھی۔کپڑوں کی عارضی دکان لگانے والے رنکو نے کہا “صبح سے دو پیس ہی بکے ہیں”۔ [؟][؟]لیکن، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حکومت کے اس فیصلے سے خفا ہیں۔ انہوں نے کہا ”ابھی وقتی پریشانی ہے جو بعد میں ٹھیک ہو جائے گی۔ مودی جی نے بہت اچھا کام کیا ہے ”۔
سروجنی نگر مارکیٹ میں بھی اختتام ہفتہ پر فٹ پاتھ یا راستوں پر سامان فروخت کرنے والے بہت کم نظر آئے ۔ تاہم، ملک کی راجدھانی میں کریڈٹ / ڈیبٹ کارڈ اورایپ پر مبنی موبائل والٹو ں سے ادائیگی کرنے والوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے مالو ں اور شو روموں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ زیادہ تر شوروم اور مال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ فروخت میں بالکل کمی نہیں آئی ہے ”۔