لکھنؤ (نامہ نگار)غازی آباد، میرٹھ، کانپوراور وارانسی کی نجکاری مخالفت کرنے والی بجلی ملازمین مشترکہ جدوجہد کمیٹی نے کہا ہے کہ جب مذکورہ اضلاع میں بہتری ہورہی ہے تو ان کی نجکاری کیوں کی جارہی ہے۔ کمیٹی کے عہدیداران نے کہا کہ نجکاری سے قبل کارپوریشن کو اپنی پالیسی واضح کرنی ہوگی تاکہ ملازمین اور عوام کو یہ معلوم ہوسکے کہ نجکاری کس بنیادپر کی جارہی ہے۔ جدوجہدکمیٹی کے کنوینر شیلندر دوبے نے کہا کہ موجودہ مالی برس میں پاورکارپوریشن کی اوسط اے ٹی اینڈ سی کا خسارہ تقریباً۳۷فیصد ہے جبکہ کیسکو کی لائنوں کا خسارہ ۳۱فیصد ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں کارپوریشن کے خسارہ میں ۶۵ء۱فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کیسکو ٹورننٹ کمپنی کو سپرد کردیا گیا توآج پاور کارپوریشن کو صرف ۴۰ء۲روپئے فی یونٹ حاصل ہورہاہے جبکہ موجودہ مالی برس میں کیسکو سے ۵۰ء۴روپئے فی یونٹ ٹیکس وصول کیا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ آگرہ میں ٹورنٹ کمپنی کو یکم اپریل ۲۰۱۰میں بجلی بندوبست سپرد کیا گیاتھا۔ اگر کانپور سے تقابل کیا جائے تو آگرہ میں اے ٹی اینڈ سی خسارہ ۴۸فیصد ہے اور ٹورنٹ کمپنی سے پاورکارپوریشن کو صرف ۲۴ء۲روپئے فی یونٹ حاصل ہورہاہے جس سے سالانہ چارسو کروڑ روپئے سے زیادہ کا پاورکارپوریشن کو خسارہ ہورہاہے۔ اس کے علاوہ آگرہ میں پرائیویٹ فرنچائیزی کے نظام میں سی اے جی کی رپورٹ کے مطابق ۵۰۰ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کا خسارہ ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ غازی آباد شہر سے تقریباً بارہ سو کروڑ روپئے سالانہ، میرٹھ سے ایک ہزار کروڑ روپئے سالانہ ٹیکس وصول ہورہاہے۔ جدوجہد کمیٹی کے عہدیدار نے کہا کہ ایک طرف حکومت کا یہ کہناہے کہ تقسیم میں خسارہ کے نام پر نجکاری کرنا ضروری ہے تو حکومت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ منافع کی نجکاری کرنے سے پاورکارپوریشن کے خسارہ میں مزید اضافہ نہیں ہوگااگر خسارہ میں اضافہ ہوگا تو اس کا بوجھ صارفین کو ہی برداشت کرنا ہوگایا پھر کمپنی خود سے ادا کرے گی۔ جدوجہد کمیٹی نے انتباہ دیا کہ اگر نجکاری کے فیصلہ کو واپس نہیں لیا گیا تو ۶فروری کو ستیہ گرہ، ۱۷و۱۸فروری کو کام کا بائیکاٹ اور ۱۹فروری کو چوبیس گھنٹہ کی ہڑتال کی جائے گی۔