کیوبا کے انقلابی رہنما فیڈل کاسترو 90 برس کی عمر میں چل بسے، وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق کیوبا کے صدر راؤل کاسترو نے اپنے بھائی فیڈل کاسترو کی وفات کی تصدیق کی۔
١٣ اگست 1926 کو ایک کسان کے گھر میں آنکھ کھولنے والے فیڈل کاسترو کو 21ویں صدی کی عالمی سیاست کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے، انھوں نے تقریباً 50 برس تک کیوبا پر حکمرانی کی۔
فیڈل کاسترو بچپن ہی سے انقلابی سوچ کے حامل تھے، ان کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوانا یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہوا، انہوں نے اس وقت کے صدر رامن گراؤ کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مہم چلائی۔
١٩٥٣ میں آمر وقت فُلجینسیو بتستا کی کرپٹ اور ظالم حکومت کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے کی پاداش میں فیڈل کاسترو کو اپنے بھائی اور دیگر سیکڑوں ساتھیوں سمیت 15 سال قید کی سزا سنائی گئی، تاہم ١٩٥٥ میں ایک معاہدے کے نتیجے میں انہیں رہائی مل گئی۔
رہائی کے بعد ایک اور انقلابی رہنما چی گویرا نے فیڈل کاسترو کے کندھے سے کندھا ملایا اور دونوں کی مشترکہ جدو جہد نے 1959 میں آمر فُلجینسیو بتستا کو کیوبا چھوڑنے پر مجبور کردیا، جس کے بعد فیڈل کاسترو نے کیوبا کے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھالیا۔
1976 میں انقلابی رہنما نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا، تاہم 2008 میں صحت سے جڑے مسائل کی وجہ سے کاسترو نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ملک کی بھاگ دوڑ اپنے بھائی راؤل کاسترو کے حوالے کر دی تھی۔
سوشلزم پر یقین رکھنے والے کاسترو نے کئی دہائیوں تک امریکی معاشی امداد کے بغیر کیوبا کا نظام حکومت چلایا جبکہ امریکی سامراج کے خلاف گوریلا جنگ لڑی۔
امریکی ملک کیوبا میں فیڈل کاسترو کے انقلاب کے بعد کمیونزم کے مغرب میں پھیل جانے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے، جس کے بعد امریکا اور کیوبا میں سرد جنگ کا آغاز ہوگیا تھا، تاہم رواں برس مارچ میں امریکی صدر براک اوباما کیوبا نے کیوبا کا تاریخی دورہ کیا، جس سے اس برف کو پگھلنے میں کچھ مدد ملی۔