نئی دہلی:صدر پرنب مکھرجی، وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس صدر سونیا گاندھی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے کیوبا کے انقلابی رہنما اور سابق صدر فیڈل کاسترو کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔صدر نے مسٹر کاسترو کو ہندستان کا دوست قرار دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا ‘ہندستان کے دوست کیوبا کے انقلابی رہنما اور سابق صدر فیڈل کاسترو کے انتقال پر میں دل کی گہرائیوں سے دکھ کا اظہار کرتا ہوں’۔وزیر اعظم نے مسٹر کاسترو کو 20 ویں صدی کے عظیم شخصیات میں سب سے مشہور قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے ہندستان نے اپنا ایک بہترین دوست کھو دیا ہے جس کا انہیں دلی افسوس ہے ۔
دکھ کی اس گھڑی میں حکومت ہند اور ہندستان کے عوام کیوبا کی حکومت اور وہاں کے عوام کے تئیں گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔انھوں نے اس موقع پر مسٹر کاسترو کی روح کے سکون کی دعا کی۔کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اپنے غم پیغام میں کہا کہ وہ ہمیشہ کمزوروں ، ناداروں اور مظلوموں کے لئے لڑتے رہے ۔ ان کے انتقال سے ہونے والا نقصان کیوبا یا ایک خاص نظریہ تک ہی محدود نہیں ہے ۔
انہوں نے مظلومین کی قیادت کی اور اظہار کی آزادی کا گلا گھونٹنے والی ہر کوشش کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر کاسترو نے دنیا کے مختلف فورموں پر ہندوستان کے مقاصد کی ہمیشہ حمایت کی۔محترمہ گاندھی نے ناوابستہ تحریک میں مسٹر کاسترو کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مختلف فورموں پر ہندوستان کے مقاصد کے لئے ان کی مضبوط حمایت کی یاد ہندوستانی عوام کے دل ودماغ میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔
واضح رہے کہ امریکہ کی ناک کے نیچے ایک طاقتور کمیونسٹ ملک کی بنیاد رکھ کر پانچ دہائیوں تک اسے کھلا چیلنج پیش کرنے والے کیوبا کے انقلابی رہنما مسٹر کاسترو کا 90 سال کی عمر میں کل جمعہ کی رات کو انتقال ہو گیا تھا۔مسٹر کاسترو کیوبا کے انقلاب کے ذریعے امریکہ کی حمایت والی بتستا کی آمریت کو ختم کرکے کیوبا کے وزیر اعظم بنے ۔ وہ 1965 میں کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سکریٹری بنے اور کیوبا کو ایک جماعتی سوشلسٹ جمہوریہ بنانے کے بعد وہ ریاستی کونسل اور وزارتی کونسل کے صدر بن گئے ۔
انہوں نے کیوبا کی مسلح افواج کے ‘کمانڈر ان چیف’ کا عہدہ بھی اپنے پاس ہی رکھا۔ مسٹر کاسترو کی طرف سے آمریت کی تنقید کے باوجود انہیں ایک آمرکے طور پر ہی پیش کیا گیا۔ہاضمہ کی ایک نامعلوم بیماری کے لئے آنتوں کی سرجری سے ڈایورٹیکلٹس ہو جانے سے کاسترو نے اس وقت کے نائب صدر راؤل کاسترو کو 31 جولائی 2006 کو اپنی ذمہ داریاں منتقل کر دیں۔اپنا مینڈیٹ ختم ہونے کے پانچ دن پہلے 19 فروری 2008 کو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پھر سے صدر اور کمانڈر ان چیف نہیں بننا چاہتے ہیں جس کے بعد 24 فروری 2008 کو نیشنل اسمبلی نے راؤل کاسترو کو کیوبا کے صدر کے طور پر منتخب کیا۔اقتدار میں رہنے کے دوران کئی بار کاسترو کے قتل کی کوششیں کی گئیں۔ طویل عرصہ تک کاسترو کی سیکورٹی پر مامور رہے فبین اسکالانتے کے بقول امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے مسٹر کاسترو کے قتل کے لئے 638 بار کوششیں کیں یا منصوبے بنائے جس میں دھماکہ خیز سگار، ایک زہریلی پھپھوند والا ا سکوبا-ڈائیونگ سوٹ اور مافیا طرز کی شوٹنگ جیسی مبینہ کوششیں شامل ہیں ۔ مسٹر کاسترو کو مار ڈالنے کی مبینہ سازش پر ‘638 ویز ٹو کل کاسترو’ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بھی بنی ہے ۔