واشنگٹن: امریکہ کے سبکدوش ہونے والے صدر بارک اوباما نے 2016 کے صدارتی انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے سرورز اور ای میلز کی سائبر ہیکنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے روسی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کے اعلی حکام پر پابندی لگا دی اور 35 روسي حکام کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔امریکی وزارت خارجہ نے واشنگٹن میں واقع روسي سفارت خانے اور سان فرانسسکو میں واقع قونصل خانے سے 35 سفارت کاروں کو نکال دیا ہے ۔ انہیں 72 گھنٹے کے اندر اندر خاندان سمیت امریکہ چھوڑنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ ان سفارت کاروں کو اپنے سفارتی حیثیت کے منفی طریقے سے کام کرنے کی وجہ سے ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے ۔ہوائی میں چھٹیاں منا نے والے مسٹر اوباما نے ایک بیان میں کہا”ہم نے روس کی حکومت کو کئی نجی اور سرکاری انتباہ بھیجنے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے ۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرکے امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف ضروری اور مناسب کارروائی ہے ۔مسٹر اوباما نے کہا ”تمام امریکیوں کو روس کی کارروائی سے ہوشیار ہو جانا چاہئے ۔واضح رہے کہ امریکی انتظامیہ کے اس اقدام سے امریکہ کے میری لینڈ اور نیو یارک میں واقع دو روسي سرکاری احاطے تک اب وہاں کے لوگوں کی رسائی نہیں ہوگی۔ سائبر حملے کے معاملے میں اوباما انتظامیہ نے یہ اب تک کا سب سے سخت قدم اٹھایا ہے ۔
مسٹر اوباما نے روس کے دو انٹیلی جنس سروسز جي آریو اور ایف ایس بی کے خلاف پابندی عائد کی ہے ۔ جي آریو کا تعاون کرنے والی کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے ، تاہم روسی حکام نے اوباما انتظامیہ کے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ روس کی حکومت امریکہ میں صدارتی انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔روسی صدر دفتر کریملن نے امریکی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مناسب جوابی کارروائی کا وعدہ کیا۔ اس نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی ان پابندیوں پر مہر لگائی ہے ۔امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کی شاخوں میں ہیکنگ کے پیچھے روس کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے کہا کہ روسي سائبر حملہ آوروں کا مقصد ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کو یقینی بنانا تھا۔ مسٹر ٹرمپ نے ایجنسیوں کے اس تفتیش کو مسترد کر دیا ہے ۔واضح رہے کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سمیت اعلی قیادت کے پرستار مسٹر ٹرمپ 20 جنوری کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان پابندیوں کو جاری رکھتے ہیں یا واپس لے لیتے ہیں۔
قبل ازیں کہا گیا تھا کہ امریکہ کی سبکدوش ہونے والی بارک اوباما انتظامیہ صدارتی انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے سرورز اور ای میلز کی سائبر ہیکنگ میں روس کے ملوث ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف نئی پابندی لگانے کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔امریکی صدر بارک اوباما پہلے ہی مبینہ روسی ہیکنگ کی تحقیقات کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ رپورٹ جنوری کے آغاز میں آ سکتی ہے ۔دوسری طرف امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ انتظامیہ کو ‘اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہئے اور ہر چیز کو تلاش کرنا چاہئے ”۔ اب تک مسٹر ٹرمپ نے سائبر حملوں میں روسی کردار کو ماننے سے انکار کیا ہے ۔میڈیا میں آئی خبروں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے روس نے کہا ہے کہ امریکہ کے اس قسم کے کسی بھی اقدام کو اشتعال انگیز تصور کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی روس نے کارروائی کی بھی وارننگ دی ہے ۔ ان پابندیوں میں ہیکنگ سے وابستہ لوگوں کے نام اور حکومت کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنے والے لوگوں کے نام شامل ہو سکتے ہیں۔ روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ”اگر واشنگٹن کوئی نیا معاندانہ قدم اٹھاتا ہے تو اس کا جواب دیا جائے گا”۔امریکی کارروائی میں پابندیوں میں توسیع اور سفارتی اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اکتوبر میں امریکہ نے روس پر سیاسی ہیکنگ حملوں کا الزام رسمی طور پر لگایا تھا۔ امریکہ نے کہا تھا کہ یہ ہیکنگ حملے امریکی انتخابات میں مداخلت کے لئے کئے گئے تھے ۔اس ماہ کے آغاز میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے حکام نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ روسی ھیکروں نے امریکی انتخابات میں مسٹر ٹرمپ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔