لکھنؤ: اترپردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی کا باضابطہ دو حصوں میں تقسیم ہونا اب تقریباً طے ہوگیا ہے ۔
یادو خاندان میں تقریباً سات ماہ سے جاری رسہ کشی کے بعد سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو آج دوپہر اچانک پارٹی کے ریاستی ہیڈکوارٹر پہنچے جہاں میڈیاکی موجودگی میں وزیر اعلی بیٹے اکھلیش یادو اور بھائی رام گوپال یادو کے خلاف سر عام غصہ کا اظہار کیا۔کارکنوں سے ساتھ نبھانے کی جذباتی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کے ڈر سے رام گوپال سماج وادی پارٹی کو توڑ رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن میں اس نے اکھل بھارتیہ سماج وادی پارٹی کے نام سے نئی پارٹی کے رجسٹریشن کی درخواست دی ہے ۔ موٹرسائیکل انتخابی نشان مانگا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کافی جدوجہد کے بعد پارٹی کو اس مقام تک پہنچایا ہے ۔ کسی کی رائے کے بغیر اکھلیش کو وزیر اعلی بنادیا۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا ان کو دے دیا ۔ اب میرے پاس صرف کارکن رہ گئے ہیں۔ رام گوپال کے بہو بیٹے بدعنوانی کے معاملے میں ملوث ہیں۔ رام گوپال دوسری پارتی سے اسی وجہ سے تین مرتبہ مل چکے ہیں اور اسی پارٹی کے دباو میں سماج وادی پارٹی کو توڑ رہے ہیں۔ مجھ سے کہتے تو میں دونوں کو بچالیتا۔
مسٹر ملائم سنگھ یادو نے کہا کہ اکھلیش رام گوپال کی ہی بات مان رہا ہے ۔ انہیں کی سن رہا ہے اور وہ پارٹی توڑ رہا ہے ۔ ہم پارٹی کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے اکھلیش سے کہا کہ تو اس کے چکر میں کیوں ہے ۔ تنازع میں مت پڑ۔ تمہیں تنازع میں نہیں پڑنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم کسی قیمت پر پارٹی میں اتحاد چاہتے ہیں۔ کسی کو الگ نہیں کرنا چاہتے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ (کارکنان) ہماری حمایت کریں تاکہ ہماری سماج وادی پارٹی اور ہماری سائیکل بچی رہے ۔ میرا تعاون کرنا، میرا اعتماد کرنا۔مسٹر یادو نے کہا کہ ایمرجنسی میں اکھلیش ڈھائی سال کے تھے ۔ شیو پال کو سیفئی میں آنے پر پابندی تھی۔ وہ رات میں آٹھ بجے آتا تھا اور صبح چار بجے نکل جاتا تھا۔ شیو پال کا احسان ماننا چاہئے ۔شیو پال نے پارٹی کھڑا کرنے میں کافی تعاون دیا ۔انہوں نے کہا کہ ان کے پاس جو کچھ تھا سب اکھلیش کو دے دیا ۔ اب ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہے ۔ کارکنوں سے انہوں نے اپنے ساتھ رہنے کا وعدہ بھی لیا اور کہا کہ پارتی کو ہر حال میں بچانا ہے ۔
اس سے قبل سماج وادی پارٹی میں جاری رسہ کشی کو ختم کرنے کے لئے پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو اور ان کے وزیر اعلی بیٹے اکھلیش یادو کی کل رات تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک بات ہوئی تھی۔ دونوں کی ملاقات کے بعد ہی قانون ساز کونسل کے دوسالہ الیکشن کے لئے اکھلیش خیمے کے ذریعہ امیدواروں کے ناموں کا یک طرفہ اعلان سے ہی واضح ہوگیا تھا کہ بات چیت ناکام ہوگئی ۔باپ بیٹے کے درمیان کل تقریباً نوے منٹ تک بات چیت ہوئی تھی۔ اس بات چیت میں کئی اور موجود نہیں تھا۔ اکھلیش کو یہاں یکم جنوری کومنعقدہ ہنگامی اجلاس میں پارٹی کا قومی صدر اعلان کئے جانے کے بعد سے باپ بیٹے کی یہ دوسری میٹنگ تھی۔ پارٹی کی تقسیم سے بچانے کے لئے سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو نے پیر کی شام نئی دہلی سے یہاں پہنچتے ہی ریاستی اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے اقتدار میں آنے پر اکھلیش کو وزیر اعلی بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ پھر بھی بات نہیں بن سکی۔باپ بیٹے کے درمیان آئندہ ریاستی اسمبلی الیکشن میں سماج وادی پارٹی کے وزیر اعلی عہدہ کے امیدوارکے نام کا اعلان پر اختلاف تھا۔ ملائم نے پہلے اکھلیش یادو کو پارٹی کا وزیر اعلی کا چہرہ اعلان کرنے سے انکار کردیا تھا۔ملائم سنگھ یادو او روزیر اعلی بیٹے اکھلیش یادو سے تنازع کا اصلی سبب خاندان تناو کو قرار دیا جارہا ہے ۔ لیکن سیاسی تنازع 21جون کو ممبر اسمبلی مختار انصاری کی پارٹی قومی ایکتا دل کے سماج وادی پارٹی میں انضمان کے بعد سے شروع ہوا۔
قومی ایکتا دل کے انضمام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے وزیر اعلی نے اس کے رو ح رواں رہے سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بلرام یادو کو کابینہ سے برخاست کردیا تھا۔ آناً فاناً میں 25جون کو پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ طلب کی گئی۔ پارلیمانی بورڈ نے بلرام یادو کا بینہ میں واپسی اور قومی ایکتا دل کا پارٹی میں انضمام کو مسترد کردیا۔ دو ماہ تک معاملہ ٹھیک رہا۔ اس دوران ستمبر میں ملائم سنگھ یادو نے اکھلیش یادو کو ہٹا کر شیو پال سنگھ یادو کو پارٹی کا ریاستی صدر بنادیا۔اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے وزیر اعلی نے وزیر شیو پال کے تمام اہم محکمے چھین لئے لیکن ملائم کے دباو میں پی ڈبلیو ڈی کے علاوہ تمام محکمے واپس کردئے ۔ حالانکہ اس سے پہلے شیو پال سنگھ یادو نے وزیر کے عہدہ سے استعفی دے دیا جسے وزیر اعلی نے نامنظور کردیا تھا۔ان واقعات کے درمیان وزیر اعلی کے حامی سڑک پر اتر آئے ۔ وہ تین چار دن تک یہیں ڈٹے رہے ۔ ان کے حامیوں نے ایک دن تو ملائم سنگھ یادو کے گھر کا محاصرہ بھی کیا حالانکہ محاصرہ کرنے والے نوجوانوں کو پارٹی سے باہر نکال دیا گیا تھا ۔جھگڑے کا کلائمکس اکتوبر کے آخر ی ہفتہ میں دیکھا گیا۔ وزیر اعلی نے 23 اکتوبر کو شیو پال سنگھ یادو اور ان کے تین حامی وزرا نارد رائے ، اوم پرکاش سنگھ اور شاداب فاطمہ کو کابینہ سے برخاست کردیا۔
اس کے اگلے ہی دن 24 اکتوبر کو ملائم سنگھ یادو کی موجودگی میں پارتی دفتر میں چچا شیو پال سنگھ یادو اور بھتیجے اکھلیش یادو میں دھکا مکا ہوگیا۔ مائک کی چھینا جھپٹی بھی ہوئی۔ اکھلیش یادو اسمبلی الیکشن میں ٹکٹ تقسیم میں اپنا موثر رول چاہتے تھے جو پارٹی کے ریاستی صدر کے عہدہ سے ہٹائے جانے کے بعد ایک طرح سے ختم ہوگیا تھا۔یہ تنازع دسمبر کے آخری ہفتے میں اپنے عروج پر پہنچ گیا ۔ جب پارٹی سے اکھلیش یادو اور رام گوپال یادو کو چھ سال کے لئے نکال دینے کا اعلان کیا گیا۔ تنازع کے دوران ہی رام گوپال یادو کو پہلے بھی نکالا گیا تھا لیکن اٹاوہ میں پریس کانفرنس کے دوران رو پڑنے کی وجہ سے ملائم سنگھ یادو نے انہیں دوبارہ پارٹی میں شامل کرلیا تھا۔وزیر اعلی اور رام گوپال یادو کے پارٹی سے اخراج کے دوسرے دن ہی پارٹی کے سینئر لیڈر محمد اعظم خان کی مداخلت سے دونوں کی پارٹی میں واپسی ہوگئی ۔ اس کے فوراً بعد 31 دسمبر کو رام گوپال یادو نے یکم جنوری کو پارٹی کا قومی نمائندہ اجلاس طلب کرلیا۔ کانفرنس میں ملائم سنگھ کو ہٹاکر اکھلیش یادو کو پارٹی کا صدر اعلان کردیا گیا اور ملائم سنگھ کو پارٹی کا مارگ درشک بنادیا گیا۔
اسی دن اکھلیش یادو نے شیو پال کی جگہ پر نریش اتم کو ریاستی صدر بنادیا۔ اکھلیش خیمے نے پارٹی کے ریاستی دفتر پر قبضہ بھی کرلیا۔ ملائم خیمے نے کانفرنس کو غیر آئنیے قرا ردیا اور کہا کہ جب کانفرنس ہی پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہے تو عہدیداروں کی تبدیلی کو کیسے درست کہا جاسکتاہے ۔دوسری طرف اکھلیش یادو خیمے کے ذریعہ یکم جنوری کو پارٹی صدر کے عہدہ سے ہٹائے جانے کے بعد ملائم سنگھ یادو اپنے چھوٹے بھائی شیو پال سنگھ یادو کے ساتھ پیر کو پہلی مرتبہ پارٹی دفتر گئے تھے ۔ان واقعات کے درمیان معاملہ اب الیکشن کمیشن میں ہے ۔ دونوں خیمے اپنے کو ہی اصلی سماج وادی پارٹی بتاکر سائیکل انتخابی نشان پر دعوی کررہے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کو طے کرنا ہے کہ اصلی سماج وادی پارٹی کون ہے ۔ سائیکل کس کی ہوگی ۔ دونوں خیمے کے تنازع میں سائیکل انتخابی نشان کو ضبط بھی کیا جاسکتا ہے ۔