پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے تینوں ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا
پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ ٹیم نے اپنی غلطیوں کی وجہ سے آسٹریلیا میں جیتنے کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔
واضح رہے کہ پاکستانی ٹیم کو سیریز کے تینوں ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مصباح الحق نے آسٹریلیا سے وطن واپسی کے بعد بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کی اپنی کارکردگی بہت مایوس کن رہی جبکہ بحیثیت مجموعی ٹیم بھی خراب کھیلی۔
انھوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کپتان کی اپنی کارکردگی ٹیم کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے اسی لیے انھیں اس بات کا بے حد دکھ ہے کہ وہ اس دورے میں اپنی ٹیم کے کام نہ آسکے اور ان سے رنز نہ ہونے کا ٹیم کو بہت نقصان ہوا۔
مصباح الحق نے اپنی خراب بیٹنگ فارم کا بنیادی سبب شارٹ سلیکشن کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ سینیئر بیٹسمین پر جب دباؤ آتا ہے تو وہ اپنی شارٹ سلیکشن میں غلطی کر بیٹھتے ہیں اور یہی کچھ ان کے ساتھ ہوا۔
پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے مزید کہا کہ کرکٹرز کے کریئر میں اس طرح کی صورتحال سامنے آتی ہے جب تمام تر کوشش کے باوجود ان سے رنز نہیں ہو پاتے۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ ان کے پاس دو ماہ کا وقت ہے جس میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرسکیں گے۔
مصباح الحق کے مطابق ای این چیپل کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنے کپتان سمتھ کو مشورے دیں جو اتنی زیادہ وائٹ واش کا شکار ہو چکے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اندر کھیلنے کے جذبے کو محسوس کرتے ہوئے فیصلہ کریں گے کہ انھیں مزید کھیلنا چاہیے یا رک جانا چاہیے، لیکن ان کی خواہش ضرور ہے کہ وہ اچھے انداز میں بین الاقوامی کرکٹ سے رخصت ہوں اور اچھی یادیں لے کر جائیں۔
مصباح الحق نے کہا کہ میلبرن ٹیسٹ میں شکست کے بعد وہ بہت زیادہ مایوس تھے کیونکہ انھوں نے جو اہداف مقرر کیے تھے اور جو کچھ سوچ رکھا تھا ایسا نہیں ہوا۔
ایک ایسا میچ جس میں پاکستانی ٹیم حاوی دکھائی دے رہی تھی وہ ہار گئی۔
میلبرن ٹیسٹ کی پریس کانفرنس میں انھوں نے جو کچھ بھی کہا وہ اسی مایوسی کا نتیجہ تھا تاہم پھر ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچ بچار کرتے ہوئے سڈنی ٹیسٹ کھیلے لیکن بدقسمتی سے یہ پورا دورہ ہی پاکستانی ٹیم کے لیے اچھا ثابت نہ ہوسکا۔
مصباح الحق نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کے بارے میں کہا کہ ’تنقید کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں، پہلا حلقہ ان حقیقی شائقین کا ہے جنھیں پاکستانی ٹیم کی خراب کارکردگی پر بہت دکھ پہنچا ہے اور ان کی تنقید اسی دکھ کا نتیجہ ہے جو قابلِ فہم ہے لیکن دوسرا حلقہ ان چند لوگوں کا ہے جو پاکستانی ٹیم کے عالمی نمبر ایک بننے کا غصہ اب نکال رہا ہے، اسے اس ہار کا غصہ نہیں ہے۔‘
ان کے بقول سب کو یہ بات حقیقت پسندی سے سوچنی چاہیے کہ جو ٹیم مسلسل جیت رہی ہوتی ہے اسے شکست کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، یہ کھیل ہے جس میں بڑی بڑی ٹیموں کو بھی مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ پچھلے چھ سال کی کامیابیوں کو بھلا دیا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ چھ سال میں کچھ بھی اچھا نہیں ہوا اور یہی ہونا تھا۔
مصباح الحق نے اپنی خراب بیٹنگ فارم کا بنیادی سبب شارٹ سلیکشن کو قرار دیا
مصباح الحق نے موجودہ ٹیم کا 1999 کی ٹیم سے موازنہ کرنے پر ہونے والی تنقید کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا موجودہ پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی سب سے مضبوط ٹیم ہے تو انھوں نے سادہ لفظوں میں یہ جواب دیا تھا کہ ان کے خیال میں1999 میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی ٹیم سب سے مضبوط ٹیم تھی۔ انھوں نے قطعاً یہ نہیں کہا تھا کہ ننانوے کی ٹیم بھی تو ہاری تھی تو ہم پر کیوں تنقید ہورہی ہے۔
انھوں نے سابق آسٹریلوی کپتان ای این چیپل کے بیان کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور فضول قرار دیتے ہوئے کہا کہ آسٹریلوی ٹیم سری لنکا کی نوجوان ٹیم سے وائٹ واش ہو کر جا چکی ہے وہ انڈیا میں ہارچکی ہے وہ پاکستان سے متحدہ عرب امارات میں وائٹ واش ہو چکی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے ایشیا میں نہیں آنا چاہیے؟
’ہوم کنڈیشنز سے باہر ہر ٹیم مشکل سے دوچار ہوتی ہے۔ ای این چیپل کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنے کپتان سمتھ کو مشورے دیں جو اتنی زیادہ وائٹ واش کا شکار ہو چکےہیں۔ ان کے اس بیان پر پاکستان کرکٹ بورڈ کو سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔‘